Home>Posts>Religion & Culture>مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا فقط تاریخ نہیں بلکہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہیں

مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا فقط تاریخ نہیں بلکہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہیں

|
27-January-2020

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے مجھے ایک بزرگ عالمِ دین کی محفل میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ میرے ذہن میں ایک سوال تھا جو موقع ملتے ہیں میں نے قدرے جھجھکتے ہوئے اُن سے دریافت کیا۔ میں نے اُن سے سوال کیا کہ شیعوں کے اندر چند ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو مصائب […]

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے مجھے ایک بزرگ عالمِ دین کی محفل میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ میرے ذہن میں ایک سوال تھا جو موقع ملتے ہیں میں نے قدرے جھجھکتے ہوئے اُن سے دریافت کیا۔ میں نے اُن سے سوال کیا کہ شیعوں کے اندر چند ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کا انکار کرتے ہیں، بعض انہیں محض تاریخی واقعات قرار دے دیتے ہیں، بعض شہادتِ سیدہ سلام اللہ علیھا کا انکار کرتے ہیں اور بعض ان روایات کی جانچ پڑتال کرتے نظر آتے ہیں جو مصائب سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیھا بیان کرتی ہیں۔ ان مصائب میں لوگوں کا درِ سیدہ سلام اللہ علیھا پر جمع ہونا، وہاں شور و غُل بپا کرنا، دھمکیاں دینا، اُسے آگ لگانا، دروازے کو گرایا جانا، شہادتِ جنابِ محسن ابنِ علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام اور اس واقعے سے متعلق دیگر حقائق شامل ہیں۔

بزرگ عالمِ دین نے میرے سوال کو غور سے سنا اور رندھی ہوئی مگر جلال سے بھرپور آواز میں مجھے فقط اتنا کہا کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کو فقط تاریخی واقعہ کہنے والے یا اسے جھٹلانے والے جاہل ہیں جنہیں یہی معلوم نہیں کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا تاریخ نہیں بلکہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔ کہنے کو یہ بہت مختصر جواب تھا لیکن تھا اتنا پر اثر کہ میرے ذہن میں راسخ ہوگیا۔ اس دن کے بعد سے مجھے یہ ادراک ہوگیا کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کا تذکرہ کیوں ضروری ہے۔ وہ کون سا انتظام ہے جو سیدہ سلام اللہ علیھا نے کیا، جس کی بدولت حق و باطل، حقدار و غاصب اور ظالم و مظلوم کا فرق کیا جاتا رہے گا۔ آنے والے زمانوں میں جب مناظرے ہونگے تو ایسے بہت سے اہل دل ہونگے جو اسناد پر بحث کرتے کرتے اچانک ضمیر کی عدالت میں پہنچ جاینگے اور بارگاہ سیدہ سلام اللہ علیھا میں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے ہوئے واپس آجاینگے۔

سوشل میڈیا کی بدولت بہت سی معلومات تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ ان بزرگ عالم دین نے جو بات مجھے ایک جملے میں کافی برس پہلے سمجھائی تھی آج سوشل میڈیا پر مدرسہ القائم عج جیسے مدارس کے فیس بک پیجز کے توسط سے وہی بات مختلف بزرگ علماء و فقہا کی زبانی سمجھنے کا موقع میسر آتا ہے۔ مثلا آیت اللہ میرزا جواد تبریزی رح کا فرمانا کہ شہادت سیدہ سلام اللہ علیھا کا منکر فقیہ ہی نہیں ہے۔ یا آیت اللہ سید محمد حسینی شاہرودی کا فرمانا کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا شیعہ عقیدہ اور ولایت اہلیبیت ع کی ضروریات میں سے ہیں۔ یہ محض تاریخی واقعہ نہیں۔ اسی طرح آقائی وحید خراسانی، سید سیستانی، سید صادق شیرازی جیسے بہت سے فقہا کی مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کی تائید و اہمیت کے حوالے سے آراء نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔

البتہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مصائب سیدہ سلام اللہ علیھا کے منکر محمد حسین فضل اللہ جیسے ضال و مضل کی مدح سرائی کرنے والے کچھ منافق خود کو علماء و فقہا کا چاہنے والا ظاہر کرکے ہم جیسے “رسمی شیعوں” کو فقہا کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ہم رسمی شیعوں کا پیمانہ سادہ سا ہے، جو سیدہ سلام اللہ علیھا کے دشمنوں کو رعایت دے اور خود کو شیعہ بھی کہے، ایسے منافق سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ چاہے وہ فضل اللہ ہو یا دشمنان سیدہ سلام اللہ علیھا کو “اپنے لوگ” کہنے والا کوئی خود ساختہ استاد۔

میں بہت گناہگار اور کمزور عقیدے کا انسان ہوں لیکن سیدہ سلام اللہ علیھا نے میری مدد فرمائی۔ مجھے بتلا دیا کہ جس سے ہم خوش ہوں اس سے جڑے رہو اور جس سے ہم ناراض ہوں اس سے دور رہو۔ یہ حکم میں نے اپنی گرہ سے باندھ لیا ہے، توفیق ہوئی تو قبر میں بھی یہی دہرا دوں گا۔

Tags


Share This Story, Choose Your Platform!


Latest From Twitter