Home>Posts>Community Issues>حقوق انسانی کے عملبردار شہید خرم زکی اور تکفیری دہشت گرد بلال خان کا تقابل بدترین بدیانتی ہے

حقوق انسانی کے عملبردار شہید خرم زکی اور تکفیری دہشت گرد بلال خان کا تقابل بدترین بدیانتی ہے

|
18-June-2019

خرم ذکی شہید کیا کرتا تھا؟ تکفیریت کے خلاف ببانگ دہل بات کرتا تھا۔ انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کے جنازے کو کاندھا دیتا نظر آتا تھا، استحصال کا شکار مسیحی برادری سے اظہار یک جہتی کیلئے ان ہمراہ صلیب پکڑ کر احتجاج کرتا نظر آتا تھا، بلا ناغہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل […]

خرم ذکی شہید کیا کرتا تھا؟

تکفیریت کے خلاف ببانگ دہل بات کرتا تھا۔ انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کے جنازے کو کاندھا دیتا نظر آتا تھا، استحصال کا شکار مسیحی برادری سے اظہار یک جہتی کیلئے ان ہمراہ صلیب پکڑ کر احتجاج کرتا نظر آتا تھا، بلا ناغہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ ہونے کی دہائی دیتا تھا، قصور میں بچوں سے زیادتی کا شرمناک واقعہ سامنے آیا تو دیگر ایکٹوسٹ کے ہمراہ وہاں کھڑا نظر آیا، پاکستان میں داعش کی وکالت کرنے والے لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز کے خلاف عدالتوں کے چکر لگاتا رہا، کسی مزار پر حملے میں صوفی سنی مارے جاتے تو خرم ذکی احتجاج کرنے والوں میں سب سے آگے نظر آتا، کسی مسجد امام بارگاہ پر حملہ ہوتا تو خرم ذکی سب سے آگے نظر آتا، پاکستان میں شیعہ نسل کشی حقیقت ہے، یہ خرم ذکی نے باور کروایا، کوئی فوجی جوان یا صفوت غیور جیسا آفیسر شہید ہوتا تو خرم ذکی خراج تحسین پیش کرنے والوں میں سب سے آگے نظر آتا، شجا ع خانزادہ لشکر جھنگوی کے حملے میں شہید ہوئے تو خرم ذکی نے یاد دلایا کہ یہ ملک اسحاق کی ہلاکت کر ردعمل ہے۔ وہ بار بار دہائی دیتا تھا کہ کالعدم تکفیری تنظیموں کو کھلا مت چھوڑیں، یہ صرف شیعہ نہیں بلکہ ہر پاکستانی کی دشمن ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دن وہ خود اسی تکفیریت کا نشانہ بن گیا جس کےخلاف وہ آواز اٹھاتا آیا تھا۔ پاکستان ہر بڑے اخبار اور جریدے میں خرم ذکی کی شہادت پر آرٹیکل شائع ہوئے جن میں بتایا گیا کہ خرم کا ایک مشن تھا، اور وہ مشن تکفیریت کے خلاف جنگ تھی۔

خرم ذکی سنہ 2016 میں شہید کردیا گیا اور اس کی وصیت کے مطابق اسے پاکستان کے پرچم کے ساتھ دفن کیا گیا۔ خرم ذکی مظلوم کی آواز تھا، کسی ظالم کا ترجمان نہیں۔

بلال خان کیا کرتا تھا؟

بلال خان کالعدم سپاہ صحابہ کا رکن تھا اور اس دھڑے سے تعلق رکھتا تھا جو ملک اسحاق کی ہلاکت پر بہت دلگرفتہ تھا۔ شیعوں کی اعلانیہ تکفیر کرنا اس کا معمول تھا۔

بلال خان دوسرے مسالک، فرقوں، مذاھب کے ماننے والوں کے عقائد اور مذھبی شعائر کا مذاق اڑاتا، دوسروں کے مذھبی جذبات کو مجروح کرتا، ان کی مقدس شخصیات پر فرقہ وارانہ حملے کیا کرتا تھا، وہ شیعہ مسلمانوں کے خلاف بلاسفیمی کمپئن چلارہا تھا، احمدیوں کے خلاف بھی نفرت پھیلاتا تھا، اعتدال پسند صوفی سنی مسلمانوں پر تنقید کرتا اور تحریک لبیک جیسی تنظیموں کی تعریف کیا کرتا تھا

مشال خان کی بہیمانہ شہادت پر بلال خان زور و شور سے اس کے قتل کا دفاع اور اس پر گستاخی کا الزام لگاتا نظر آیا، بریلوی مکتب فکر کے اندر سے ایک متشدد گروہ خادم رضوی کی صورت میں ظاہر ہوا تو بلال خان اس کے ساتھ نظر آیا۔

آج بلال خان کے جنازے میں جو تقریریں ہوئیں ان میں عمران خان کے خلاف توہین صحابہ کا کارڈ کھیلا گیا۔ نفرت آمیز تقریریں کی گئیں۔ بلال خان کو کالعدم اہلسنت والجماعت / سپاہ صحابہ کے جھنڈے کے ساتھ دفنا دیا گیا۔

ایک طرف پاکستان کے جھنڈے میں دفنائے جانے کی وصیت کرنے والا خرم ذکی جو ہر مظلوم کیلیے بلاتفریق آواز اٹھاتا تھا اور دوسری طرف سپاہ صحابہ کے جھنڈے کے ساتھ دفن ہونے والا بلال خان جو ملک اسحاق جیسے سفاک درندے کا مرید تھا۔ ان دونوں کو ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکھ کر یہ باور کروانا یہ دونوں انتہا پسند تھے، دراصل مظلوم اور ظالم کو ایک برابر کہنے کے مترادف ہے۔ خرم ذکی مقتول و مظلوم کا ہمدرد تھا اور بلال خان ظالموں کا ترجمان۔

آزادی اظہار کا لازمی پہلو دوسروں کی آزادی اظہار کے حق کو بھی تسلیم کرنا اور دوسروں کے ان کے خیالات سے اختلاف کے باوجود جینے کے حق کا ہر حال میں احترام کرنا ہوتا ہے، کسی فسطائی خیالات کے شخص کو قتل کیا جانا بھی قابل مذمت ہے اور اس کی جان لینے والوں کو واک اوور نہیں دیا جاسکتا، لیکن ایک فسطائی خیالات کے حامل شخص کو ‘آزادی اظہار’ کا علمبردار بناکر پیش کرنا زیادتی ہے-اور اس کا مقابلہ کسی ایسے شخص سے کرنا جو دوسروں کے آزادی اظہار کے حق کو تسلیم کرتا رہا ہو، جس نے کبھی لوگوں کو ان کی مذھبی و نسلی شناخت کے سبب قابل نفرت یا واجب القتل نہ گردانا ہو اور اُن دونوں کو مقتول آزادی اظہار بتانا یہ زیادتی اور غلط بائنری ہے…..

بلال خان کا قتل ناجائز ہے، ظلم ہے، ناانصافی ہے، قابل مذمت ہے، قابل افسوس ہے اور اُس کے والدین کا صدمہ ناقابل برداشت ہے لیکن صد ہا معذرت کے ساتھ بلال خان مذھبی منافرت پر مبنی ایک فسطائی سوچ کا مالک نوجوان تھا، وہ انسانوں سے ان کی مذھبی شناخت کی بنیاد پر نفرت کرتا تھا اورمذھبی منافرت پر ہونے والے قتل کا ایک یا دوسرے طریقے سے جواز تلاش کرتا تھا، اُس کا مشعال خان سے موازانہ کرنا یا اُس کے قتل کو آزادی اظہار کے سبب قرار دینا غلط اور گمراہ کُن ہے-

Tags


Share This Story, Choose Your Platform!


Latest From Twitter