Home>Posts>Community Issues, Religion & Culture>حُسین اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لیے – عامر حسینی

حُسین اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لیے – عامر حسینی

|
01-September-2019

آج محرم الحرام کی پہلی تاریخ ہے اور 61ھ ھجری میں ہوئے واقعہ کربلاء کے بعد سے محرم الحرام کے دس دن پوری دنیا کے مسلمانوں کی سنی اور شیعہ اکثریت کے لیے حُزن و ملال و عزا کے دن ہوتے ہیں اور سنی اور شیعہ مسلمان دونوں اپنے اپنے شعار کے مطابق ان ایام […]

آج محرم الحرام کی پہلی تاریخ ہے اور 61ھ ھجری میں ہوئے واقعہ کربلاء کے بعد سے محرم الحرام کے دس دن پوری دنیا کے مسلمانوں کی سنی اور شیعہ اکثریت کے لیے حُزن و ملال و عزا کے دن ہوتے ہیں اور سنی اور شیعہ مسلمان دونوں اپنے اپنے شعار کے مطابق ان ایام عاشورا کو مناتے ہیں، ان کے کئی ایک شعار مشترک اور کچھ شعار مختلف ہیں لیکن اس اکثریت کے نزدیک یہ دس روز مشترکہ طور پر امام عالی مقام حسین ابن علی، ان کے خانوادے اور رفقاء کے صبر و استقلال، ثابت قدمی، شجاعت، قربانی کی یاد منانے کے دن ہیں، اہل تشیع کے ہاں یہ سلسلہ چہلم امام حسین تک چلتا ہے اور وہ مابعد عاشورا کربلاء سے کوفہ اور کوفہ سے دمشق اور دمشق سے واپس مدینہ تک پسماندگان امام حسین و دیگر کی آمد تک کو کئی ایک طرح سے اجتماعی نشستوں میں عزاداری کے ساتھ خصوصی اہتمام سے یاد کرنا جاری رکھتے ہیں

نسیم را به نگاهم شراره می بینم
هلال ماه عزا را دوباره می بینم

برصغیر کا خطہ جو آج ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش اور دونوں اطراف کا کشمیر و جموں، گلگت بلتستان و لداخ پر مشتمل ہے کے شیعہ اور سنی مسلمان ہی نہیں بلکہ سکھ، ہندؤ، مسیحی، پارسی سب کی اکثریت اس مہینے کے دس روز سوگ اور ملال کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے شیعہ-سنی مسلمانوں کے ساتھ مل کر مناتی ہے بلکہ حسینی براہمن کے مندروں میں تو باقاعدہ مجالس اور مرثیہ خوانی، سوز و سلام پیش کیے جاتے ہیں

مسلمانوں کی اکثریت نے ماڈرن دور میں جب سے انگریزی کلینڈر کے مطابق سال نو کی تقریبات کا کلچر یہاں پروان چڑھا کبھی بھی محرم الحرام کے آغاز میں مبارکباد اور ہیپی نیو اسلامی ائر جیسا کوئی کلچر اختیار نہیں کیا یہ چند سالوں سے کچھ لوگوں کا وتیرہ بنا ہے، وہ اسے جیسے چاہیں منائیں لیکن جن لوگوں کے لیے یہ دن سوگ اور حزن کو بطور شعار دس دن اختیار کرنے کا پہلا دن ہے اُن کو تبریک کا پیغام ارسال کرنا اُن کی دل آزاری کرنا تو ہے ہی ساتھ ہی تہذیب نفس کے بھی اور ہماری مقامی روایتی دلداری و غم خواری کی روایت کے بھی منافی ہے

محرم الحرام میں ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی گروہ کو یہ بتانے کی کوشش کریں کہ یہ ایام اُن کو منانے چاہیں یا نہیں، یا منائیں تو کیسے منائیں؟

ہر مسلک، فرقے، مذھب کے اپنے اپنے شعار ہیں اور وہ انھی شعار کے ساتھ ایام مناتے ہیں، شیعہ اور سنی مسلمانوں کی اکثریت کے اپنے شعار ہیں اور وہ 61ھ ھجری کے بعد سے صدیوں کے سفر کے دوران اپنے اپنے شعار مرتب کرپائے ہیں اور اس میں ہر خطے کے اپنے کلچر، زبان اور ماحول نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور یہ شعار مقامی اور آفاقیت دونوں رنگ لیے ہوئے ہیں اور ان شعار کو دیگر مذاھب کے ماننے والوں نے بھی پورا پورا احترام بخشا ہے اور اسے جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں وہاں کے مقامی کلچر اور تہذیب سے جڑے تہوار، ایام میں سے ایک شمار کیا گیا ہے اور سب اس کا آدر، احترام کرتے ہیں

کربلاء، شہدائے کربلا خصوصی طور حسین ابن علی حریت فکر اور مزاحمت کا عالمگیر استعارہ بن چُکے ہیں اور یزید اور اُس کے ساتھی ظلم، جبر، زیادتی کا, یہ دو استعارے کسی فرد یا گروہ کے انکار یا انحراف سے بدلنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی صدیوں کا سفر طے کرکے آنے والا عاشورا کا طاقتور ثقافتی اظہار کسی کی نام نہاد عقلیت پسندی پر مبنی تخفیف پسندی کی نذر ہوگا، جیسے برصغیر کے کمپوزٹ کلچر کو کوئی ہندوتوا یا کوئی مسلم فرقہ وارانہ یا بنیاد پرستانہ لہر ختم نہیں کرسکتی یہ بھی ختم نہیں ہونے والا، درمیان میں سخت ادوار آسکتے ہیں فسطائیت وقتی غلبہ پاسکتی ہے لیکن برصغیر کی تکثریت پسند فطرت ایسے عارضی اور وقتی مصیبت اور مشکلات سے پُر ادوار سے آخر کار فتح مند ہوکر ہی نکلے گی

دنیا بھر کے دوسرے مذاھب اور یہاں تک کہ مذھب پر سرے سے یقین نہ رکھنے والے بھی شیعہ اور اہلسنت مسلمانوں سے ان ایام عزا و سوگ وملال میں یک جہتی کا اظہار اور اسے بطور کمپوزٹ کلچر کے ایک اہم ترین جزو کے مناتے آئے اور مناتے رہیں گے

در حُسین پہ ملتے ہیں ہر خیال کے لوگ
حُسین اتحاد کا مرکز ہے آدمی کے لیے

Tags


Share This Story, Choose Your Platform!


Latest From Twitter