Home>Posts>Community Issues, Religion & Culture>محرمی لباس – نور درویش

محرمی لباس – نور درویش

|
01-September-2019

فرشِ عزا پر عزاداروں کے بیٹھنے کیلئے جو چادر بچھائی جاتی ہے اُسے اُردو میں چاندنی کہا جاتا ہے۔ عموما سفید یا سیاہ رنگ کی ایک بڑی چادر ہوتی ہے جسے کسی دری یا کارپٹ کے اوپر بچھایا جاتا ہے۔ امام بارگاہوں میں ذی الحجہ کے مہینے سے ہی مرمت، رنگ و روغن اور دیگر […]

فرشِ عزا پر عزاداروں کے بیٹھنے کیلئے جو چادر بچھائی جاتی ہے اُسے اُردو میں چاندنی کہا جاتا ہے۔ عموما سفید یا سیاہ رنگ کی ایک بڑی چادر ہوتی ہے جسے کسی دری یا کارپٹ کے اوپر بچھایا جاتا ہے۔ امام بارگاہوں میں ذی الحجہ کے مہینے سے ہی مرمت، رنگ و روغن اور دیگر ضروری کام شروع کر دئیے جاتے ہیں تاکہ سوا دو مہینوں کے دوران کسی قسم کے پریشانی نہ، کسی عزادار کو تکلیف نہ ہو۔ ایسا ہی کچھ اُن گھروں میں بھی ہوتا ہے جہاں مستورات کا عشرہ محرم منعقد ہوتا ہو۔ میں بچپن سے لیکر اب تک دیکھتا آیا ہوں کہ محرم سے قبل بالخصوص اُس کمرے میں رنگ و روغن کرکے اُس کی خصوصی صفائی ستھرائی کی جاتی تھی جہاں فرشِ عزا بچھانے کا ارادہ ہوتا تھا۔ یہ ہر گھر، ہر امام بارگاہ اور ہر عزادار کیلئے روٹین کا حصہ ہے۔ اس میں نہ ہی کسی قسم کے اصراف کا پہلو ہے اور نہ ہی (معاذ اللہ) کسی خوشی کے اظہار کا کوئی تاثر۔ سادہ سی بات فقط اتنی ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اُس کا عزاخانہ اس قابل ہو کہ وہاں ذکر حسینؑ سننے کیلئے آنے والوں کو تکلیف نہ ہو، ہر ایک کے ذہن میں یہ خیال ہوتا ہے کہ اسی فرش پر کہیں ایک ضعیف ماںؑ آکر بیٹھے گی اور یہیں کہیں سید الساجدینؑ تشریف لاینگے۔

سیاہ لباس بھی ایامِ عزا میں تشیع کا تخصص ہے، صرف بر صغیر پاک و ہند نہیں بلکہ میں نے عرب میں بھی خصوصیت کے ساتھ سیاہ لباس پہن کر عزاداروں کو اپنے حزن کا اظہار کرتے پایا۔ سیاہ لباس ایامِ عزا اور تشیع کی پہچان ہے اور اصلاح کے نام پر جو طبقہ بھی اس کے پیچھے لٹھ لیکر دوڑ پڑا ہے، اُسے اپنی توانائی کسی مثبت کام میں استعمال کرنا چاہئے۔

برصغیر بالخصوص اُردو سپیکنگ طبقے میں ایک اضافی پہلو بھی موجود ہے کہ یہ طبقہ محرم میں کسی قسم کا شوخ رنگ نہیں پہنتا۔ سرخ، پیلا، گلابی، کاسنی، جامنی غرض ہر وہ رنگ جس سے خوشی کا اظہار ہو، اُسے سو دو مہینے تک نہیں پہنا جاتا۔ کسی نے مولانا حسن ظفر نقوی سے پوچھ لیا تھا کہ کیا محرم میں شادی کرنا منع ہے؟ جس پر اُنہوں نے جواب دیا تھا کہ بھائی بات منع یا منع نہ ہونے کی نہیں ہے، بات فقط اتنی ہے کہ ہم محرم میں خوشی مناتے نہیں۔ ہمارا دل نہیں مانتا۔

یہی معاملہ لباس اور لباس کے رنگ کا ہے، ہمارا دل نہیں مانتا کہ ہم محرم میں کوئی شوخ رنگ پہنیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محرم سے پہلے خصوصی طور پر سیاہ یا محرمی رنگوں کے کپڑے تیار کیے جانےچاہیے یا نہیں؟ یہ سوال بالخصوص خواتین کیلئے ہے کیوں کہ مردوں کیلئے یہ معاملہ بہرحال اتنا اہم نہیں۔ میرے پاس سیاہ شلوار قمیض کے چند جوڑے ہیں جو میں عاشورہ پر پہن لیتا ہوں اور باقی ایامِ عزا میں کوئی بھی محرمی رنگ کی قمیض ٹی شرٹ یا شلوار قمیض پہن کر بغیر کسی پریشانی کے گزار لیتا ہوں۔ یہی کم و بیش سب مرد حضرات کی صورتحال ہوتی ہے۔ البتہ مرکزی جلوسوں میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سیاہ لباس پہن کر اپنے تخصص کا اظہار کرے اور یہ اعلان کرے آج وہ حزن کے عالم میں ہے۔

جہاں تک معاملہ خواتین کا ہے تو اس کا حقیقیت پسندانہ جواب بہت مختصر سا ہے کہ اگر آپ کے پاس محرم کے سوا دو مہینے گزارنے کیلئے مناسب سادہ کپڑے موجود ہیں تو ظاہر ہے آپ کو نئے کپڑے بنانے یا خریدنے کی ضرورت نہیں اور آپ کو کوشش بھی یہی کرنی چاہئے کہ آپ اصراف کا پہلو مدنظر رکھیں۔ دوسری صورت میں محرم سے قبل سیاہ یا محرمی رنگ کا لباس خریدنا یا سلوا لینا کسی خوشی کا اظہار نہیں کہلائے گا بلکہ سوا دو مہینے کیلئے مناسب لباس کی موجودگی یقینی بنانا کہلائے گا۔ اب اس وسیلے سے کسی درزی کو زیادہ کام مل رہا ہے تو یہ نام مولاؑ اُس کی روزی اُس کا مقدر ہے، محرم کے یہ سوا دو مہینے صرف درزی ہی نہیں پورے ملک کی معیشت پر مثب اثر ڈالتے ہیں، یہ امام حسینؑ کا صدقہ ہے۔ امام حسینؑ کے نام کا تبرک سوا دو مہینے تک ہزار ہا لوگوں کی معیشت کو سنبھالا دیتا ہے۔

بچوں کے قد مہینوں میں بڑھتے ہیں اور اُن کے لباس جلد چھوٹے ہوجاتے ہیں۔ لہذا بالخصوص بچیوں کے معاملے میں مائیں زیادہ دھیان رکھتی ہیں کہ اُن کیلئے محرم بھر کیلئے مناسب کپڑے موجود ہوں۔ بچے عام دنوں میں ایک لباس بمشکل ایک دن چلا پاتے ہیں، تو محرم میں کیسے ایک ہی لباس میں پورا ہفتہ گزار لینگے؟ لکھتے ہوئے اچھا نہیں لگ رہا لیکن دو تین کپڑے کے جوڑوں میں سوا دو مہینے گزار لینا بہرحال خواتین کیلئے بھی ممکن نہیں، یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ مردوں کی نسبت مستورات کی مجالس کا سلسلہ زیادہ وسیع ہوتا ہے۔

مجھے اصلاح و تبلیغ کے داعیانِ فیس بک کی سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ ٹھیک محرم سے قبل ایسی ” تحریک” چلا تو دیتے ہیں لیکن اس کا حقیقیت پسندانہ اور معتدل زاویہ کیوں نہیں پیش کرتے، کوئی مناسب حل کیوں نہیں بتاتے؟ کیا فقط بڑے بڑۓ برینڈ ہی محرم کے کپڑے بیچتے ہیں؟ ہرگز نہیں، اکثریت خواتین خود کپڑا خرید کر محرم کیلئے لباس سلواتی ہیں، کیوں سلواتی ہیں، اس کا جواب میں اوپر دے چکا۔ اور اگر کوئی خاتون محرم سے قبل اپنے یا اپنی بچی کیلئے کہیں سے سلا سلایا کپڑا خرید بھی رہی ہے تو اُس کی نیت کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہمیں کس نے دیدیا؟ یہ تو سراسر اُس کا انفرادی معاملہ ہے کہ وہ خود دیکھے کہ آیا اُس کا عمل ضروت شمار ہوگا یا اصراف۔ اگر اصراف ہے تو اُسے اس سے گریز کرنا چاہئے اور اگر ضرورت ہے تو یہ کسی صورت کسی خوشی کا اظہار نہیں سمجھا جائے گا۔

آخری گزارش خود کو بہت بڑا مصلح اور دردِ دل رکھنے والا سمجھنے والے حضرات سے ہے کہ آپ نیتوں کا حال اللہ پر چھوڑ دیں، غمِ حسینؑ کو ایک عزادار اور امام حسینؑ کا معاملہ رہنے دیں۔ مرد مصلحین کا خواتین کے لباس پر گفتگو فرمانا ویسے بھی کچھ معیوب لگتا ہے، مجھے بھی یہ تحریر مجبورا لکھنا پڑی کیوں مرد مصلحین کی خواتین کے لباس پر اصلاحی نظر گہری سے گہری ہوتی جارہی ہے۔ لہذا دست بستہ گزارش بس یہی ہے کہ چاہے جلوس میں ننگے پاوں، شکن آلود سیاہ لباس پہنے، چاک گریباں کیے، بال بکھرائے کوئی مرد عزادار ہو یا مجلس میں محرم سے قبل نیا سلا ہوا کپڑا پہنے ہوئے کوئی خاتون عزادار ہو، ان دونوں کو ان کے لباس کی وجہ سے نہیں بلکہ نیت کی بنیاد پر پرکھیے اور وہ بھی صرف اُس وقت جب آپ کے پاس پرکھنے کا اختیار ہو، ورنہ اصلاح کے نام پر شر اور فساد پھیلانا بند کریں۔

فرش عزا کیلئے صاف ستھری چاندی بچھانا، عزاخانے کو رنگ و روغن کرنا اور دیگر انتظامات کرنا ہو یا محرم کیلئے اپنے لباس کا مناسب انتظام کرنا، اس میں خدا نخواستہ کسی قسم کا خوشی کا پہلو موجود نہیں۔ ہاں اصراف جہاں ہو اور جس صورت میں ہو وہ غلط ہے اور اس کا فیصلہ ہم سب کو خود کرنا ہوگا تاکہ ہم امام حسینؑ کے سامنے شرمندہ ہو ہوں۔

Tags


Share This Story, Choose Your Platform!


Latest From Twitter