Home>Posts>Community Issues, Politics>پاکستان کے مورمن: علامہ جواد نقوی کی کلٹ – تحریر جواد علوی

پاکستان کے مورمن: علامہ جواد نقوی کی کلٹ – تحریر جواد علوی

|
30-November-2019

پاکستانی شیعوں کے حلقوں میں علامہ جواد نقوی کی تحریک پھر سے زیر بحث ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح جو مسائل زیر بحث لائے جا رہے ہیں وہ جزئی مسائل ہیں۔ اس تحریک کو ترقی یافتہ سماجی علوم، جیسے اینتھروپالوجی (بشریات) کے عقلی اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جیسے کہ […]

پاکستانی شیعوں کے حلقوں میں علامہ جواد نقوی کی تحریک پھر سے زیر بحث ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح جو مسائل زیر بحث لائے جا رہے ہیں وہ جزئی مسائل ہیں۔ اس تحریک کو ترقی یافتہ سماجی علوم، جیسے اینتھروپالوجی (بشریات) کے عقلی اصولوں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جیسے کہ ہمیشہ ہوا ہے، علم کے خلا کو سازشی تھیوریوں سے پر کیا جاتا ہے۔ مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں، جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں، خدشات اور خطرات کے بارے میں سوچ کر ذہن پر خوف سوار کر لیا جاتا ہے۔ یہ سب کرنا اندھیرے میں ہاتھ مارنا ہے۔

علامہ جواد نقوی کی تحریک دراصل ایک کلٹ ہے۔ اس کو ایک کلٹ کے طور پر سمجھ کر ہی اس سے پھوٹنے والے مظاہر میں معنی پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس تحریک میں ولایت فقیہ اور ایرانی انقلاب کا سوانگ بھرا گیا ہے، لیکن اسکی روح ایرانی مجاھدین خلق یا امریکی مورمن کلٹ جیسی ہے۔ اسی وجہ سے یہ تحریک کسی کیلئے کوئی خطرہ نہیں نہ کسی کے کام آ سکتی ہے۔ اس کے اراکین کی تعداد بھی سینکڑوں تک محدود رہے گی جو شدید جذبات اور جہالت کے درمیان پنڈولم بن کر جھولتے رہیں گے۔ انکے خیال میں ساری دنیا انکے خلاف سازش کرتی رہے گی جبکہ وہ دنیا کو بچا رہے ہونگے۔ مالیخولیا کے اتنے مریض تو دنیا کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں۔

دنیا میں ہزاروں کلٹس پائی جاتی ہیں۔ ہر کلٹ اپنے ظاہر میں دوسری سے الگ ہوتی ہے۔ اسکے جرائم کی شدت مختلف اور نوعیت الگ ہوتی ہے۔ البتہ ان کے کلی اصول ایک جیسے ہوتے ہیں۔

کلٹ کی سب سے اہم نشانی اپنے ارکان کو ایک مطیع اور سدھایا ہوا جانور بنانا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ اپنے ممبران کی ذاتی آزادی کو ختم کر دیتے ہیں۔ ممبران اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے انکو نجس کہہ کر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ انکو عقائد میں تقلید کا درس دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ فکری نجاستوں سے پاک ہو جائیں۔ اسکا مقصد انکو تنہا کر کے شکار کرنا ہوتا ہے۔ عموما اس مقصد کیلئے مذہب کو استعمال کیا جاتا ہے۔ تنقید کرنے والے یا ہٹ کر سوچنے کی کوشش کرنے والے کا منہ مذہبی حوالے استعمال کر کے یا توہین مقدسات کا الزام لگا کر بند کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مجاھدین خلق کی لیڈر مریم رجوی اس مقصد کیلئے درس قرآن دیتی ہے۔ وہ اپنی تقاریر میں مجاھدین خلق سے اختلاف رکھنے والوں کو یزیدی قرار دیتی ہے۔ مجاھدین خلق کے کارکنان ایک خاص اور انوکھے انداز میں عزاداری کرتے ہیں۔ لیکن انکا رمضان یا محرم نارمل نہیں ہے۔

کلٹ کے اراکین ترقی یافتہ عقلی علوم پر لعنت بھیجتے ہیں۔ عموما ان میں سے اکثر نیم خواندہ ہوتے ہیں، یا پھر عملی فنون کے ماہر، جیسے ڈاکٹرز، انجینئرز اور وکلاء ہوتے ہیں۔ عقلی و نظری علوم انکے قریب سے نہیں گذرے ہوتے۔ چنانچہ مجاھدین خلق میں بڑی تعداد انجینئرز، ڈاکٹرز اور وکلاء کی ہے۔ کلٹ کے ممبران میں کوئی مورخ، کوئی اینتھروپالوجسٹ، کوئی لینگوسٹ، کوئی اعلی پائے کا سائنسدان نہیں ملے گا۔ کلٹ بیسک سائنس کو برا اور اپلائیڈ سائنس کو اچھا سمجھتی ہے۔

انکی ایک اور نشانی اپنے لیڈر کی بے پناہ مدح کرنا ہوتی ہے، اور لیڈر پر تنقید کو غیرت کا مسئلہ بنانا ہوتی ہے۔ اس سے مراد عام مدح اور نعرے بازی نہیں جو سیاسی لیڈران کیلئے کی بھی کی جاتی ہے۔ یہ مدح بہت شدید ہوتی ہے۔ ایک طرف لیڈر کو سپر مین یا بھگوان کا اوتار اور دوسری طرف خود کو نہایت حقیر اور ناچیز سمجھا جاتا ہے۔ کلٹ کے ممبر کی مدح اور سیاسی کارکن کی مدح میں فرق اسکا ممدوح کے مقابلے میں خود کو حقیر سمجھنا ہے۔ ایران میں یہی چیز مجاھدین خلق کو آیت اللہ خمینی یا دوسرے سیاسی لیڈروں کے پیروکاروں سے الگ کرتی ہے۔

کلٹ عموما لڑکے لڑکیوں میں شدید صنفی امتیاز قائم کرتی ہے۔ جنس مخالف سے کسی قسم کے تعلق کو برا سمجھتی ہے۔ بطور خاص خواتین پر شدید قسم کی پابندیاں لگاتی اور انکی زندگی کو ایک جہنم میں بدل دیتی ہے۔ لڑکیوں کی سوشل لائف اور شخصیت کچل دیتی ہے۔ اپنی بہن یا بیٹی کو کسی کلٹ کے حوالے کرنا اسکو جیتے جی مارنے کے مترادف ہے۔

کلٹ کے اراکین اپنا الگ ریاست نما ڈھانچہ بناتے ہیں۔ اپنا ہسپتال، اپنا بنک، اپنی مارکیٹ، اپنے سکول، اپنے محلے، اپنی گلیاں، اپنا ٹی وی چینل، اپنی گندم، اپنا دودھ، اپنا پانی، ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہر ممکن حد تک معاشرے سے کٹنے کی کوشش کرتے ہیں اگرچہ مکمل طور پر کٹنا انکے لئے بھی محال ہوتا ہے۔

کلٹ کے فکری رہنما سادہ اور عام فہم الفاظ کے بجائے گھمبیر اور مشکل الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ نئی لغت بناتے ہیں۔ الفاظ کو انوکھے معانی پہناتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے مریدوں کو فکری جنگل میں لے آتے ہیں جہاں انکو کچھ سجھائی نہیں دیتا۔انکا مقصد پڑھانا نہیں، الجھانا ہوتا ہے تاکہ سننے والے معانی تک پہنچنے کے بجائے نت نئی اصطلاحات کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہیں۔

کلٹ بہت کم دہشتگردی کی طرف مائل ہوتی ہے۔ یہ ڈاکو بھی نہیں ہوتے۔ ڈاکو اور دہشتگرد اپنے ساتھیوں کو برابر کا انسان سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر مشترکہ مفادات کی بیناد پر دوسرے انسانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس حساب سے مجاھدین خلق ایک استثنا ہے کیونکہ وہ ایک دہشتگرد تنظیم بھی ہے۔ کلٹ صرف اپنے کارکنان کے خلاف جرائم کرتی ہے۔ وہ اپنے کارکنان کو لوٹتی، انکا بری طرح استحصال کرتی اور انکو غلام بنا کر انکے انسانی حقوق معطل کرتی ہے۔ لیکن ریاست یا معاشرے کے خلاف جرائم نہیں کرتی۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ کلٹ ظاہر میں بڑی چمکیلی ہوتی ہے۔ بہت نفوذ والی تنظیم معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ اصل میں غبارے کی بھینس ہوتی ہے جس کے بھرے ہوئے تھنوں کو دوہنے سے دودھ نہیں نکلتا۔ بعض بیوقوف لوگ سیاسی فائدے کیلئے اسکو استعمال کرنےکی کوشش کرتےہیں مگر کلٹ انکو ناقص مال بیچ کر بھاری دام وصول کر لیتی ہے۔ بھارت کا گرمیت سنگھ ہو یا ایران کی مریم رجوی یا کوئی اور کلٹ کا لیڈر، اس کو کچھ سادہ سیاسی لوگ مل ہی جاتے ہیں جو یہ امید کرتے ہیں کہ ان سے سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ علامہ جواد نقوی کی کلٹ کو مولانا مودودی کی جماعت اسلامی یا کسی اور مذہبی سیاسی تنظیم سے تشبیہ دینا اور یہ سمجھنا کہ یہ عوامی سطح پر مقبول یا خطرناک ہو سکتی ہے، غلط ہو گا۔ ان سے زیادہ خطرناک مذہبی سیاسی تنظیمیں ہیں۔

Tags


Share This Story, Choose Your Platform!


Latest From Twitter