Home>Posts>Community Issues, Politics, Religion & Culture>سانحہ 30 ستمبر 1988 ڈیرہ اسماعیل خان کو 32 سال گرر گئے

سانحہ 30 ستمبر 1988 ڈیرہ اسماعیل خان کو 32 سال گرر گئے

|
04-October-2020

  سانحہ 30 ستمبر 1988 ڈیرہ اسماعیل خان 32 برس گزرنے کے باوجود یہ سانحہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ و جاوید ہے۔ تاریخ پاکستان میں 22 ذی الحجہ سے 19 صفر 1408 ھ یعنی 5 اگست سے 30 ستمبر 1988 تک کے تقریباً دو مہینے اہل تشیع پہ انتہائی قیامت خیز گزرے۔ قیامت […]

 

سانحہ 30 ستمبر 1988 ڈیرہ اسماعیل خان 32 برس گزرنے کے باوجود یہ سانحہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ و جاوید ہے۔



تاریخ پاکستان میں 22 ذی الحجہ سے 19 صفر 1408 ھ یعنی 5 اگست سے 30 ستمبر 1988 تک کے تقریباً دو مہینے اہل تشیع پہ انتہائی قیامت خیز گزرے۔ قیامت خیز کیوں نہ گزرتے 5 اگست کو ملت تشیع پاکستان کے اکلوتے سائبان قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی جو کہ اپنی شخصیت، کردار میں ایسی مشعل تھے کہ شیعیان حیدرکرار اس کی روشنی میں اپنے راہ و مقصد کا بلاتفریق تعین کرنے لگے تھے۔ ایسی مشعل کہ جو دوستوں و دشمنوں سبھی کیلئے یکساں باعث راحت تھی۔ ملت کے اس روشن راستے کو دشمنان ملک و ملت نے اپنی اندھی گولیوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا۔ یہ مشعل راہ رہبر و رہنماء جدا کیا ہوا کہ مختصر وقت میں ملت تشیع پہ حقوق و سلوک کے تمام دروازے بند ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ عزاداری سیدالشہداء کی قیمت عزاداروں کی زندگیوں کی صورت وصول کی جانے لگی۔



درمیان میں 17 اگست 1988 کو ڈکٹیٹر ضیاء الحق کی طیارہ حادثہ میں ہلاکت کے بعد امید ہو چلی تھی کہ شائد حالات کچھ سنبھل جائیں، تاہم محرم الحرام 1988ء میں عزاداری پہ قدغن لگانے کی جو کوششیں ہوئیں تو اس سے اندازہ ہوا کہ ضیائی پالیسیاں برسوں تک شیعیان اہلبیت علیہم السلام پہ دائرہ زندگی تنگ کرتی رہیں گی۔



اس کا ایک ثبوت ڈیرہ اسماعیل خان میں فرقہ وارانہ فسادات اور ڈیرہ انتظامیہ کی جانب سے فسادیوں کی حمایت کی صورت میں بھی ملتا ہے۔ 22 اگست 1988 کے مرکزی جلوس کے موقع پر ڈیرہ اسماعیل خان کی ضلعی انتظامیہ نے یک لخت اہل تشیع کو خبردار کیا کہ شب عاشور کے جلوس کو ہم تحفظ دینے سے قاصر ہیں، کیونکہ بازار میں موجود دکانوں کے مالکان نے کہا ہے کہ اگر جلوس یہاں سے گزرا تو ہم کسی ایک عزادار کو بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔



ڈیرہ اسماعیل خان کی ضلعی انتظامیہ کی اس وارننگ سے ہی ظاہر ہوگیا تھا کہ فسادی تنہا نہیں بلکہ انہیں ضلعی انتظامیہ، پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکیورٹی اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے ان سب کی مکمل کوشش تھی کہ جلوس کسی بھی صورت نہ نکل سکے۔ مگر دوسری جانب مومینن نے جیسے تیسے کرکے شب عاشور کے جلوس نکلے مگر ڈیرہ شہر میں تین جگہوں پر جلوس عزا کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ تعزیے کے جلوس پہ پتھراو کیا گیا، علم کے جلوس کا راستہ روکا گیا۔ اسی طرح ایک جلوس کا روٹ تبدیل کرایا گیا۔ انتظامیہ اور ان کے پالتو فسادیوں کو یہ احساس ہوچکا تھا کہ عزاداری سیدالشہدا(ع) پہ ڈی آئی خان کے لوگ کسی صورت کوئی کمپرومائز کرنے کو تیار نہیں ہیں۔



چنانچہ اس سے اگلے روز عاشور کے مرکزی جلوس جو امام چاہ سید منور شاہ سے شروع ہوتا ہے یہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا سب سے بڑا جلوس ہوتا ہے امام بارگاہ چاہ سید منور شاہ سے شروع ہوتا اور امام بارگاہ بستی ڈیوالہ، امام بارگاہ بستی استرانہ سے تعزیے برآمد کرکے ملتان روڈ، سبزی منڈی ہوتا ہو کمشنری بازار میں داخل ہوتا ہے۔ اس مرکزی جلوس کی راہ روکنے کیلئے قلیل وقت میں بڑے پیمانے پہ بندوبست کیا گیا۔ ایسا بندوبست جس میں ضلعی انتظامیہ، پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکیورٹی ادارے خود ملوث تھے۔



اول کمشنری بازار جہاں سے عاشور کا مرکزی جلوس گزرنا تھا، اس پورے بازار میں گرم تارکول بچھا کر سارا کانچ (شیشے کی ٹوٹی بوتلیں) پھیلایا گیا اور یہی نہیں بلکہ یہ انتظام بھی کیا گیا کہ اگر شرکاء جلوس تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے یہاں تک پہنچ بھی جائیں تو پورے بازار کو آگ لگانے کیلئے فقط ایک ہی تیلی کافی ہو۔ اس کے علاوہ اس بازار کے داخلی سرے پہ گرم تارکول سے بھری گاڑی لگا دی گئی۔



امام بارگاہ چاہ سید منور شاہ سے شروع ہوتا اور امام بارگاہ بستی ڈیوالہ، امام بارگاہ بستی استرانہ سے تعزیے برآمد کرکے ملتان روڈ پر آتا ہے تو ملتان روڈ پر واقع مہاجر قبرستان سے لے کر سبزی منڈی اور کمشنری بازار تک کے راستے میں جگہ جگہ ٹائر بچھائے گئے اور انہیں آگ لگا دی گئی۔



اہل تشیع اس خطرے کو بھانپ چکے تھے کہ انتظامیہ نہ صرف جلوس عزا ء روکنا چاہتی ہے بلکہ جلوس نکالنے کی صورت میں آگ اور اس کے نقصان کا الزام کا جلوس کے شرکاء پر لگا کر عزاداری کو ڈیرہ میں چاردیواری تک محدود کرنے کے درپے ہیں۔



اہل تشیع نے 10 محرم روز عاشور کا جلوس نکالنے سے پہلے ہی انتظامیہ سے روٹ کی کلیئرنس مانگی، جو کہ انتظامیہ نے دینے سے انکار بھی کر دیا اور تحریری طور پر پیغام دیا کہ جہاں جہاں سے جلوس نے گزرنا ہے، وہ راستے فریق مخالف کے زیر کنٹرول ہیں۔



انتظامیہ کے اس جواب کہ بعد اہل تشیع اکابرین و امام بارگاہوں کے متولیان اور مومینن کی باہمی مشاورت سے ڈیرہ اسماعیل خان کے تمام امام بارگاہوں کے تعزیے جہاں تھے، وہیں روک دیئے گئے۔ ڈیرہ میں محرم روک لیا گیا اور انتظامیہ کو واضح پیغام دیا گیا کہ جب تک اپنے مخصوص راستوں سے گزر کر تعزیے کے یہ جلوس کربلاء (کوٹلی امام حسین ) تک نہیں پہنچیں گے، ہم روزانہ کی بنیاد پر عزاداری اور اندرون شہر جلوسوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ پس پھر کیا تھا کہ پولیس اور ایف سی کے دستوں نے ان تمام علاقوں کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور جہاں جہاں اہل تشیع کی اکثریت تھی وہاں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیں



پس سنگینوں کے سائے میں دس محرم کو شروع ہونے والا یہ سلسلہ دس صفر تک جاری رہا اور اس دوران انتظامیہ نے تمام تر وہ حربے آزمائے، جو آج بھی کشمیر، فلسطین کے مغوی عوام کے خلاف آزمائے جا رہے ہیں۔



20 ستمبر 1988ء بمطابق 10 صفر کو مرکزی سطح پر کال دی گئی کہ عاشور کا مرکزی جلوس جو کہ اداروں کے عزا دشمن رویے کے باعث برآمد نہیں ہوسکا تھا، وہی جلوس 19 صفر یعنی 30 ستمبر 1988کو برآمد ہوگا۔ مقصد یہی تھا کہ روز عاشور تعزے کا یہ مرکزی جلوس امن سے اختتام پذیر ہونے کی صورت میں اگلے روز 20 صفر یعنی چہلم امام حسین ؑ کے روایتی جلوس برآمد ہوں گے۔



مرکزی سطح پہ اس اعلان کے ساتھ ہی ملک بھر سے شیعیان علی کے قافلے جوق در جوق ڈیرہ اسماعیل خان کی جانب روانہ ہوئے۔ انتظامیہ نے ڈیرہ شہر کی مکمل ناکہ بندی کرکے ان قافلوں کو شہر میں داخل ہونے سے روک دیا۔ ایک طرف حسینی چوک کوٹلہ جام اور چشمہ کے مقام پر ہزاروں حسینیوں کا سلسلہ ماتم و عزا جاری تھا تو دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل میں مائیں اپنے بچوں کو عصر کربلا کی جانب اپنے ہاتھوں سے تیار کرکے روانہ کر رہی تھیں۔ جذبہ شہادت سے سرشار حسینیوں کا عزم اپنے لہو سے عزاداری کی شمع کو جلا بخشنا تھا۔ ارادہ یہی تھا کہ جلوس عزا اپنے روایتی راستوں سے گزر کر کوٹلی امام حسین ڈیرہ میں اختتام پذیر ہوگا۔ تمغہ شہادت کے آرزومند سینوں میں فقط ایک ہی مقصد تھا کہ راہ عزا میں علم سربلند رہے، چاہیے تنوں پر سر رہے یا نہ رہے۔



اس وقت حاضر علماء جن میں علامہ سید افتخار نقوی پیش پیش تھے، نے جلوس کے تمام شرکاء کو نہتا کر دیا اور باقاعدہ اعلان سے حکومت وقت کو مطلع کیا گیا عزادار نہتے ہیں، یہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے، لہذا انہیں کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔



30 ستمبر کی صبح 9 بجے یہ مرکزی جلوس عزاء علم عباس تھامے یاحسینؑ، یا امام مظلومؑ کی صدائیں بلند کرتے، نوحہ خوانی و گریہ کرتے امام بارگاہ چاہ سیدمنور شاہ سے روانہ ہوا۔ امام بارگاہ بستی ڈیوالہ، امام بارگاہ بستی استرانہ سے ملتان روڈ پر برآمد ہوا۔ جلوس عزاء میں عزاداروں کا پہلا دستہ 14 حسینیوں پر مشتمل تھا اور اس کے بعد 72، 72، کے تین دستے بنائے گئے تھے



دنیا کا کوئی قانون عبادت میں مصروف نہتے، بے گناہ افراد کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ البتہ یزیدیت کے پیروکاروں کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی جد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر اس ظلم کو روا رکھیں، جس کی مثال میدان کربلا سے ملتی ہے۔



عزاداروں کا پہلا دستہ جونہی ملتان روڈ کے سامنے بستی استرانہ گلی سے برآمد ہوا۔ آگے وہ موت کی لکیر کھینچی جاچکی تھی کہ جسے عبور کرنے کی سزا کا اعلان سینے میں گولی کی صورت کیا گیا تھا۔



جلوس کے پہلے دستے نے جونہی یہ لکیر عبور کی، ڈیرہ اسماعیل خان انتظامیہ نے یزیدیت پرستی کا ثبوت دیتے ہوئے بنا کوئی وارننگ دیئے، بنا کوئی ہوائی فائرنگ کئے اور بنا کوئی آنسو گیس کی شیلنگ کئے براہ راست جلوس عزا پر گولیوں کی بارش کر دی۔ مورچہ بند اہلکاروں کی شدید فائرنگ سے کئی نوجوان چھلنی گئے۔



اس سانحہ کے ایک زخمی جو کہ اول دستے میں شامل تھا، کا بیان ہے کہ جونہی فائرنگ شروع ہوئی میرے سامنے شہید جاوید حسین پیٹ اور سینے پر ہاتھ رکھے زمین پر آیا۔ میں نے اس شہید کا سر ایک ایسی نورانی ہستی کی گود میں دیکھا جس کی سفید ریش اور سفید لباس تھا، اس ہستی کی آنکھیں نم تھیں اور وہ شہید جاوید حسین سے کلمہ پڑھنے کو کہہ رہا تھا۔ اسی اثنا میں میرے بائیں ہاتھ پر موجود ایک جوان نے علم تھاما اور آگے قدم بڑھایا ہی تھا کہ یک لخت اس کی پیٹھ لہو کے فوارے ابل پڑے۔



یہ آٹومیٹک اسلحہ سے چلائی جانیوالی گولیاں تھیں، جو اس کے آر پار ہوگئیں۔ اس زخمی کے بقول ہم مزید آگے بڑھنے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ مجھے اپنے چہرے پر گرم گرم لہو بہتا اور سر میں شدید جلن کا احساس ہوا، میں نے اپنے سر کو چھونے کا ارادہ کیا مگر لگنے والی گولی کا اثر زیادہ تیز تھا اور میں وہیں بے ہوش ہوگیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو اس سانحے کے تمام زخمی عزاداران کے ساتھ میں بھی پولیس لائن کے برآمدے میں موجود تھا۔ میرے منہ سے ایک ہی لفظ ادا ہوا پانی، اس وقت قریب ایک بزرگ مولانا نے رندھے ہوئے لہجے میں کہا بیٹا کربلا ہے، دس محرم کا جلوس عزا برآمد کیا ہے نا، حوصلہ نہ ہارنا، حسینی بن کے رہنا۔ میں نے اس بزرگ کی طرف نگاہ کی تو اس کی کھلی آستینیں لہو لہو تھیں۔ شائد کہ وہ خود بھی زخمی تھا۔



ڈیرہ اسماعیل خان پولیس لائن کے برآمدے میں پیاسے ان زخمیوں کے جسم صرف گولیوں سے زخمی نہیں تھے بلکہ پاوں کی ایڑیوں، گھٹنوں اور پیروں سے کھال ادھڑی ہوئی تھی۔ ناخن ٹوٹے ہوئے تھے۔ بعد میں پتہ چلا انتظامیہ کے ان سپوتوں نے شہداء اور زخمیوں کو سٹرک پر گھسیٹ گھسیٹ کر گاڑیوں میں پھینکا ہے۔



انتظامیہ کے اس سفاکانہ عمل کے نتیجے میں 10 عزادار شہید جبکہ 50 کے قریب زخمی ہوگئے۔ جو لوگ زخمیوں کو اٹھانے یا پانی پلانے جاتے ان پر بھی گولیاں برسائی جاتیں۔ بعد ازاں ان زخمیوں کو انتہائی بیدردی سے گرفتار کرکے پولیس لائن منتقل کر دیا گیا۔



ڈسٹرکٹ ہسپتال ڈیرہ کے اس وقت کے انچارج ڈاکٹر علی نے بڑی کوشش کرکے انتظامیہ کو راضی کیا کہ زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کے لئے ہسپتال منتقل کیا جائے۔ واہ رے قسمت کہ یاحسینؑ کہنے کی پاداش میں گولیوں سے چھلنی حسینیوں کو سنت امام سجاد علیہ السلام پر ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر ہسپتال منتقل کیا گیا۔



اس سانحہ کے ایک اور عینی شاہد کے مطابق شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اس وقت ڈیرہ سٹی کی جامع مسجد میں موجود تھے۔ ایک طرف شہداء کے جسد خاکی اور زخمی عزادار ہسپتال میں تھے اور دوسری طرف اہل تشیع کے گھروں پر فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ یہاں تک کہ جب شہید شرف حسین کوثر کا جنازہ ابھی گھر میں موجود تھا اور مومنین و مومنات اس شہید کے آخری دیدار کے لئے اس کے گھر آرہے تھے، اس وقت بھی فائرنگ کا یہ سلسلہ نہ تھما۔ اسی فائرنگ میں ایک مومنہ کو پاوں میں گولی لگی اور ضمیر حسین کے بازو میں جن کے آپریشن شہید ڈاکٹر نے جامع مسجد میں ہی کئے۔ جب جنازہ برآمد ہوا فائرنگ کا سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا۔



اس سانحہ کو آج 32 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ کیا انتظامیہ کے رویئے یا حسینؑ دشمنی میں کوئی کمی آئی ہے، اس سوال کا جواب عصر حاضر میں پیش آنے والے کئی واقعات سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل حملے کے دوران یزیدی گروہ کے سامنے ڈیرہ جیل کے دروازے کو اندر سے کھول کر انتظامیہ نے اس یزیدی ٹولے سے تعاون کیا۔ اہل تشیع قیدیوں کو شناخت کرکے چن چن کر شہید کیا گیا۔



اہل تشیع پر ہونے والے خودکش اور پلانٹڈ دھماکوں کے بعد بھی انتظامیہ کی گولیوں کا نشانہ حسینی عزادار بنے۔ اب انتظامیہ کی شیعہ دشمنی کا ایک اور ثبوت کوٹلی امام حسین (ع) پہ محکمہ اوقاف اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ناجائز قبضے کی صورت میں موجود ہے، جس کے خلاف کافی عرصہ سے آواز بلند کی جا رہی ہے اور احتجاجی کیمپ جاری ہے، تاہم انتظامیہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔



امر افسوس یہ ہے کہ وہ لوگ جو 30 ستمبر کے شہداء پہ سب سے زیادہ غم و غصے کا اظہار کرتے دکھائی دیتے تھے، آج انتظامیہ کی گود میں بیٹھ کر اس ناجائز قبضے کو جائز قرار دینے پہ کمربستہ ہیں۔



30 ستمبر 1988 کو جس جلوس عزا پہ انتظامیہ نے فائرنگ کرکے 10 عزداروں کو شہید اور بیسیوں کو زخمی کیا تھا، اس جلوس کا اختتام اسی کوٹلی امام حسین علیہ السلام میں ہی ہونا تھا، جسے ڈیرہ کے اہل تشیع کربلاء سمجھتے ہیں۔ کل اسی کربلاء کے روٹ پہ انتظامیہ کا قبضہ تھا، اسے چھڑانے کیلئے شہادتیں ہوئی تھیں، آج ڈیرہ کی کربلاء یعنی کوٹلی امام علیہ السلام پہ انتظامیہ نے قبضہ کر لیا ہے۔ خبر نہیں اسے چھڑانے کیلئے کیا کچھ قربان کرنا ہوگا۔



32 سال گزرنے کے باوجود 30 ستمبر 1988 کا سانحہ آج بھی تازہ ہے۔ سلام ہے ان شہیدوں پہ کہ جو فقط نام حسین علیہ السلام بلند کرنے کا صلہ گولیوں کی صورت حاصل کرنے کیلئے ہشاش بشاش چہروں کے ساتھ نہتے مقتل گاہ میں مطمئن چلے آئے۔



آج 30 ستمبر 2020 کی اگلی صبح انہی راستوں پہ یاحسین، لبیک یاحسین، مظلوم حسین، ہیھات من الذلہ کے نعروں سے ہوگی اور 32 سال پہلے گولیاں برسانے والے تحفظ پہ معمور ہوں گے۔ یہ ہے تاثیر خون شہیداں۔ میرا سلام ہر اس شہید پہ کہ جو راہ عزا میں نام حسین (ع) لینے کی پاداش میں قتل کیا گیا۔ اے شہیدو: تمہیں سلام۔

Tags


Share This Story, Choose Your Platform!


Latest From Twitter