پاکستان میں شیعہ نسل کشی میں کمی کے باوجود ڈیرہ اسماعیل خان کے شیعہ تشویش کا شکار
سال 2019 کے اختتام پر جہاں ایک جانب پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے رجحان میں واضح کمی نظر آتی ہے وہیں خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں رہنے والے شیعہ مسلمان ابھی تک وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی غفلت کے باعث دہشتگردی کا نشانہ بننے کی تشویش میں مبتلا […]
سال 2019 کے اختتام پر جہاں ایک جانب پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے رجحان میں واضح کمی نظر آتی ہے وہیں خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں رہنے والے شیعہ مسلمان ابھی تک وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی غفلت کے باعث دہشتگردی کا نشانہ بننے کی تشویش میں مبتلا ہیں۔
ریاست پاکستان کی جانب سے اپنی کچھ پالیسیوں کو تبدیل کرنے یا درست کرنے کے باعث ملک میں تکفیری دہشتگردی پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن ابھی ایک طویل سفر باقی ہے خاص طور پر ڈیرہ اسماعیل خان میں جسے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
تعمیر پاکستان نے شیعہ نسل کشی پر آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے تمام ڈیٹا مرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اور ہماری یہ کوششیں موقع پرستی پر مبنی نہیں تھیں۔ ہم پاکستان میں دوسرے ممالک کی دخل اندازی اور ان کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ مسلمان 1979 کے واقعات سے قبل بڑی حد تک پر سکون اور پر امن ماحول میں رہ رہے تھے۔
یہ عزاداری کی لازوال روایت ہی تھی جس نے صوفی سنیوں، شیعہ مسلمانوں، مسیحوں اور پاکستان میں رہنے والے ہندووں کو اس بندھن میں باندھ رکھا تھا تھا جس کے حوالے سے یہ خطہ مشہور ہے اور 6 ہزار سال پرانی تاریخ رکھتا ہے۔
پاکستان کے شیعہ ہمیشہ ملک پاکستان اور ریاست پاکستان کے مفادات کے محافظ رہے ہیں اور ہمیشہ اسی راہ پر کاربند رہیں گے۔
ہم اس بات کو سراہتے ہیں کہ ریاست پاکستان اپنی گہری نیند سے بیدار ہو چکی ہے اور تکفیری دہشتگردوں کو استعمال کرنے کی اپنی ناکام پالیسی کو بدل رہی ہے۔ لیکن ڈیرہ اسماعیل خان ابھی تک پالیسی کی تبدیلی کے اس عمل سے محروم نظر آتا۔