توہین علما کے دعوے دار توہین ذاکرین پر کیوں خاموش رہتے ہیں؟ – نور درویش
آپ نے ایک مائینڈ سیٹ کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ جیسے ہی جواد نقوی، قمبر نقوی یا لباس علماء میں موجود ان جیسے کسی شخص پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو تاویل پرستوں کا ایک گروہ آپ پر توہین علماء کا شور مچاتا ہوئے حملہ آور ہوتا ہے اور ذاتیات پر حملوں کے […]
آپ نے ایک مائینڈ سیٹ کا مشاہدہ کیا ہوگا کہ جیسے ہی جواد نقوی، قمبر نقوی یا لباس علماء میں موجود ان جیسے کسی شخص پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو تاویل پرستوں کا ایک گروہ آپ پر توہین علماء کا شور مچاتا ہوئے حملہ آور ہوتا ہے اور ذاتیات پر حملوں کے علاوہ جو اعتراض سب سے زیادہ کرتا ہے وہ یہ ہے کہ جعفر جتوئی، غضنفر تونسوی یا ان جیسے نظریات و عقائد رکھنے والے کسی ذاکر کے خلاف کیوں نہیں لکھتے؟ اور پھر فیصلہ سنایا جاتا یے کہ چونکہ ان کے خلاف نہیں لکھتے اور جواد نقوی کے خلاف لکھتے ہو اس لیے تم ان ذاکرین کے ہم خیال ہو، مرجعیت کے دشمن ہو، غالی ہو اور علماء کے گستاخ ہو۔ گویا اس گروہ کے اختلاف کی عمارت جھوٹ، بہتان تراشی، قیاس اور ذاتیات پر حملوں پر کھڑی ہے۔ اور ایسا منافق گروہ خود کو علماء و مرجعیت کا مدافع کہتا ہے۔
میں یہاں واضح کر دوں کہ میں مرجع دینی سید علی حسینی سیستانی کا مقلد ہوں انہیں اپنا مرشد کہتا اور سمجھتا ہوں۔ وہ بیمار ہوتے ہیں تو ان کی شفایابی کیلئے نماز شکرانہ کی منت مانتا ہوں۔ یہ سب لکھتے ہوئے بھی تکلیف ہو رہی ہے کیوں کہ ریاکاری سے نفرت ہے لیکن کیا کیا جائے اس گروہ کی مثال ان طالبان جیسی ہے جو کمر سے قمیض اٹھا کر ماتم کے نشان دیکھ کر اندازہ لگاتے ہیں کہ شیعہ ہے یا نہیں۔ اس لیے ثبوت دے رہا ہوں کہ مرجعیت کا معتقد ہوں لیکن پاپائیت کا نہیں۔ میں بر صغیر کی عزاداری اس سرزمین کے علماء و خطباء سے محبت رکھتا ہوں۔
جو شخص بھی میری تحاریر پڑھتا رہا یے وہ جانتا ہوگا کہ ان میں سید محسن الحکیم رح، سید ابو القاسم الخوئی رح، شیخ تقی بہجت رح، علامہ نقن رح، شیخ وحید خراسانی سمیت بزرگ مراجع کا تذکرہ اکثر کرتا رہتا ہوں۔ میں مرجعیت کا معتقد ہوں لیکن ان تاویل پرستوں جیسا پاپائیت زدہ معتقد نہیں جو اس قدر پست درجے تک گر جاتے ہیں کہ آقائی سید صادق شیرازی جیسے علمی خانوادے کے وارث کو گالیاں دیتے ہیں، انہیں ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور ان کی تضحیک کرتے ہیں۔ یہ گروہ اس قدر منافق ہے کہ شیخ نمر جیسے شہید کو بھی زبردستی اپنے قبیلے کا قرار دیتا ہے اور اس مرجع دینی یعنی سید صادق شیرازی کو بھی گالیاں دیتا یے جن کی توصیف شیخ نمر نے کی۔ افسوس تو یہ ہے کہ اس سید زادے کے حق میں بولنے والے کو یہ گروہ منہ پھاڑ کر “غالی” قرار دے دیتا ہے۔
یہ گروہ اتنا منافق ہے کہ ہم جیسوں کو مرجعیت و علماء کا دشمن قرار دیتا ہے اور خود شیخ بشیر نجفی جیسے بزرگ مرجع دینی کے خلاف صرف اس وجہ سے مغلظات بکتا ہے کہ انہوں نے قمہ زنی کی تائید میں فتوی کیوں دے دیا۔ کیسا منافق گروہ ہے یہ تاویل پرستوں کا جو ڈھنڈورہ علماء سے محبت کا پیٹتا ہے اور علامہ طالب جوہری جیسے بزرگ عالم پر فقرے کستا ہے جو شہید صدر رح جیسے مرجع دینی کے شاگرد اور ذیشان جوادی رح جیسے عالم کے ہم عصر ہیں۔ جنہیں شہید صدر نے علامہ کا خطاب دیا اور قرہ العینی کہہ کر مخاطب کیا، ہمارے ملک میں تاویل پرستوں کا گروہ ان پر رکیک حملے کرتا ہے۔مقصد بس ایک ہوتا ہے کہ کسی طرح جواد نقوی، قمبر نقوی، حسین مسعودی اور اس قبیل کے لوگوں کی گمراہ کن باتوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ ان پر تنقید کرنے والوں کو روکا جا سکے۔
میرا خیال ہے کہ یہ تاویل پرستی کی بد نما ترین شکل ہے۔ لیکن کیا اس مائینڈ سیٹ کی تمام ذمہ داری فقط سوشل میڈیا پر موجود ان تاویل پرستوں پر عائد ہوتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس میں بہت بڑا کردار اس طبقے کا بھی ہے جو خود کو پاکستان کی ملت تشیع کا بڑا سمجھتا ہے اور ان کے عقائد پر نظر رکھتا یے کہ کب کوئی شوکت رضا شوکت جیسا شاعر گمراہ کن شعر پڑھے اور اس کے خلاف کاروائی کی جایے، کب غضنفر تونسوی، جعفر جتوئی، آصف علوی یا اس مائینڈ سیٹ کا کوئی ذاکر غلو آمیز بات کرے اور یہ اس کے خلاف مدعی فراہم کرکے مقدمے کرنے کا عزم کرے یا کب کسی صاحب عمامہ کی فضائیل و مناقب کے باب میں “غلو” پر مبنی بات پر وضاحت طلب کرے۔
لیکن ملت کے یہی بڑے حیرت انگیز طور پر اس وقت لاتعلق یا خاموش نظر آتے ہیں جب قمبر نقوی ٹی وی پر بیٹھ کر گمراہ کن باتیں کرتا ہے، جب جواد نقوی دشمنان سیدہ سلام اللہ علیھا کو “اپنے لوگ” کہتے ہیں، امامت و عقیدہ مہدویت کی گمراہ کن تشریح کرتے ہیں، شیعوں کی تکفیر کرنے والے شیعہ دشمنوں کی اقتداء میں نمازیں پڑھ کر اسے وحدت کا نام دیتے ہیں، حضرت مختار رض کو مرتد کہلوا کر مسکراتے ہیں۔
ہمارے بڑے اس وقت بھی کہیں نظر نہیں آتے جب حسین مسعودی جیسے عمامہ پوش ٹی وی پر بیٹھ کر دشمن علی علیہ السلام کے “فضائیل” سناتا ہے۔ آخر یہ دو طرح کا رویہ کیوں؟ یہ کیسا معیار ہے کہ فضائیل اہلیبیت علیھم السلام میں غلو کرنے پر تو سخت ردعمل لیکن تقصیر کرنے والوں کیلئے خاموشی؟
یہی وہ پہلو ہے جس کی وجہ سے مجھ گناہگار جیسے کئی عام شیعوں کے ذہن میں سوال اٹھتے ہیں اور ہم جواد نقوی یا اس قبیل کے لوگوں سے سوال پوچھ کر اپنی بے چینی کا مداوا کرتے ہیں کہ گمراہ ذاکرین کے خلاف تو ملت کے بڑے بیدار و چوکس ہیں لیکن ان عمامہ پوشوں کیلئے چونکہ خاموشی ہے لہذا ہم ہی کیوں نہ سوال پوچھ لیں۔
جہاں تک معاملہ تاویل پرستوں کا ہے تو ان کے اس حربے کو میں فقط ایک طریقہ واردات سمجھتا ہوں۔ قمبر نقوی، جواد نقوی اور ان جیسے نظریات رکھنے والوں پر تنقید کا رخ موڑنے کیلئے اس گروہ نے یہ طریقہ ایجاد کر رکھا ہے کہ ان عمامہ پوشوں کا تقابل جعفر جتوئی یا غضنفر تونسوی جیسے زاکروں سے کر کے انہیں تنقید سے بچا لو۔ حالانکہ کوئی صاحب عقل شخص یہ جانتا ہے کہ ایک مخصوص مائینڈ سیٹ کی آڈینس سے خطاب کرنے والے ذاکر کو اس شخص سے کیسے موازنہ ہو سکتا ہے جو کروڑوں اربوں روپے کے سیٹ اپ اور نیٹ ورک کے ذریعے، لباس علماء میں اپنے نظریات بطور “شیعہ مبلغ’ ہر جگہ پھیلاتا ہے۔ خدا نے اتنی عقل مجھے دے رکھی ہے کہ موازنہ کرتے ہوئے عدل سے کام لوں۔
لہذا یہ “علماء دشمنی” والا سودا بہت بک چکا۔ البتہ اگر کسی تاویل پرست کو بہت شوق ہے فتوی گیری کرنے کا تو کرتا رہے، میرے جوتے کو بھی پرواہ نہیں۔
اکبر جناب فاطمہ ع راضی رہیں فقط
دنیا ہو گر خفا تو خفا رہنے دیجیے۔