میانمار: ڈیڑھ سو برس قدیم امام بارگاہ جس کی نگہبانی بدھ مت کو ماننے والے کرتے ہیں
میانمار کے قدیم شہر عماراپورا میں واقع ڈیڑھ سو برس قدیم امام بارگاہ کی نگہبانی ایک بُدھ مت مذہب کا پیروکار خاندان کر رہا ہے۔ یہ خاندان چار نسلوں سے اس امام بارگاہ کا متولی ہے۔ اِن کا رہن سہن عام بُدھ مت پیروکاروں سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ جیسا کہ اس خاندان کے […]
میانمار کے قدیم شہر عماراپورا میں واقع ڈیڑھ سو برس قدیم امام بارگاہ کی نگہبانی ایک بُدھ مت مذہب کا پیروکار خاندان کر رہا ہے۔
یہ خاندان چار نسلوں سے اس امام بارگاہ کا متولی ہے۔ اِن کا رہن سہن عام بُدھ مت پیروکاروں سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ جیسا کہ اس خاندان کے افراد دیگر پیروکاروں کے برعکس خنزیر کا گوشت نہیں کھاتے ہیں اور اہل تشیع کے ساتھ ایام عزا کے سوگ میں شامل ہوتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب برما میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات خوشگوار نہیں اور سنہ 2016 میں بدھ مت اور مسلمانوں کے مابین ہونے والے فسادات کے بعد سے بہت سی مسجدیں آج بھی بند ہیں، مجھے اس امام بارگاہ اور اس کے احاطے میں موجود مسجد کو دیکھ کر خوشگوار حیرت اور اطمینان ہوا۔
میانمار کا قدیم شہر عماراپورا سنہ 1783 سے سنہ 1859 تک برما کا دارالحکومت رہا ہے۔ یےگار موشے کی کتاب ’برما کے مسلمان‘ کے مطابق سلطنت اووا کے دور میں (یعنی سنہ 1850) میں یہاں 20 ہزار مسلمان خاندان آباد تھے۔
ماندلے شہر سے 11 کلومیٹر کی دوری پر واقع اس شہر میں آج ایک بھی اہل تشیع کنبہ موجود نہیں ہے۔ اس حقیقت کے باوجود گذشتہ ایک صدی سے وہاں انگریزوں کے دور میں تعمیر کی جانے والی امام بارگاہ آج بھی قائم و دائم ہے اور ہر سال محرم اور سفر کے مہینوں میں زائرین کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔
برما میں یہ امام بارگاہ پرائیویٹ ٹرسٹ کے طور پر چلایا جاتا ہے۔ عمارا پورا امام بارگاہ کے ٹرسٹی ڈاکٹر ایم اے شیرازی بتاتے ہیں کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی نے اس امام بارگاہ کی تعمیر سنہ 1884 میں ایک بدھ مت پیروکار مچھیرے کے کہنے پر کی تھی۔
مرنے سے پہلے سنہ 1917 میں عمارت کی ملکیت کے کاغذات امانت کے طور پر ان کے حوالے کر گئے۔
ماندلے شہر کے رہائشی 84 سالہ ڈاکٹر شیرازی بتاتے ہیں کہ یہاں مشہور روایت یہ ہے کہ ان کے نانا آغا علی اکبر شیرازی کے پاس ایک پریشان حال مچھیرا آیا جس کے ہاتھ میں ایک علم تھا۔
اس مچھیرے کو یہ علم اراوادی دریا سے ملا تھا۔ مچھیرے کا تعلق بدھ مت سے تھا۔ وہ علم گھر لے آیا اور بھول گیا۔ روایت کے مطابق اسے تین بار خواب میں آغا شیرازی سے ملنے اور امام بارگاہ بنانے کی جگہ کی نشاندہی ہوئی تھی۔
بدھ مت سے تعلق رکھنے والا یہ مچھیرا ماتیں سوں کے پرنانا تھے۔ تین نسلوں سے یہ خاندان امام بارگاہ کی نگہبانی کر رہا ہے۔
لگ بھگ تین سے چار کنال پر پھیلی ہوئی اس امام بارگاہ کے احاطے میں برمیز لکڑی کے چھوٹے سے گھر میں یہ اپنی والدہ اور شوہر کے ساتھ رہتی ہیں۔
امام بارگاہ کے احاطے میں ان کے شوہر اپنی گاڑیوں کا گیراج چلاتے ہیں۔ ہر سال محرم اور صفر کے مہینوں میں یہ زائرین کا استقبال کرتے ہیں۔ ماندلے اور دوسرے بڑے شہروں سے یہاں ننگے پیر زائرین چہلم (اربعین) کے لیے بھی آتے ہیں۔
امام بارگاہ کے احاطے میں مسجد ہے جہاں ان ایام میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
امام بارگاہ کے پچھلے احاطے میں ایک پرانی قبر بھی موجود ہے۔ یہ قبر حاجی سید محمد حسین نجفی المعروف حاجی سیدی کی ہے جن کی وفات سنہ 1918 میں ہوئی تھی۔
رواں برس برما میں کووڈ 19 کی وجہ سے عبادت کے مقامات بند رکھے گئے ہیں۔ مولانا کہتے ہیں ’کووڈ کی وجہ سے ہمیں حکومت نے اس سال عزاداری سے منع کیا ہے۔ جب حکومت ہمیں کبھی کبھار منع کرتی ہے تو ہم مان لیتے ہیں۔
Link: