افغانستان کے ہزارہ اور ان کی شیعہ شناخت: ایک تاریخی جائزہ – یحیحی بیضا
خلاصہ یہ تحقیق افغانستان کی ہزارہ برادری میں شیعت کی جانب مائل ہونے کا تاریخی جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ہزارہ شیعہ برادری کی شناخت کے گرد قیاس آرائیوں، تعصبات اور من چاہی تشریحات نے گھیرہ ڈال رکھا ہے۔ان تعصبات اور تشریحات کا تنقیدی جائزہ اس بات کو آشکار کرتا […]
خلاصہ
یہ تحقیق افغانستان کی ہزارہ برادری میں شیعت کی جانب مائل ہونے کا تاریخی جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق ہزارہ شیعہ برادری کی شناخت کے گرد قیاس آرائیوں، تعصبات اور من چاہی تشریحات نے گھیرہ ڈال رکھا ہے۔ان تعصبات اور تشریحات کا تنقیدی جائزہ اس بات کو آشکار کرتا ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے علما اور دانشوروں نے ہزارہ برادری کی شیعہ شناخت کا بھرپور علمی جائزہ نہیں لیا۔ بلکہ اس کے بجائے انہوں نے اس بارے میں کسی ثبوت کے بغیر ہی مفروضے گھڑ لیے۔ ان کے تجزیے اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ وہ شیعہ اسلام کو صرف اثنا عشری کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسماعیلی شیعت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں۔ اس لیے ان تجزیوں کا ایک تازہ اور بھرپور علمی جائزہ بہت ضروری ہے اور اس سلسلے میں مربوط اور موجود معلومات کی تشریح کی ضرورت ہے۔(1)
تعارف
یہ تحقیق افغانستان کی ہزارہ برادری میں شیعت کے فروغ پر مرکوز ہے۔ یہ اس بات کا علمی جائزہ پیش کرتی ہے کہ کیسے اور کب ہزارہ برادری میں شیعت کی جانب مائل ہونے کا آغاز ہوا اور باقی افغانوں کے مقابلے میں یہ رجحان ہزارہ برادری میں سب سے زیادہ کیوں مضبوط تھا۔ ان سوالوں کا تنقیدی جائزہ موجودہ معلومات اور ان پر کیے جانے والے سوالات اور مفروضوں کے منظم تجزیے اور تشریحات کی روشنی میں لیا گیا ہے۔ ان میں وہ آوازیں بھی شامل ہیں جو وقت کے جبر کے تحت دبائی گئیں تھیں۔ رائج مفروضوں، تعصبات اور تشریحات کے تنقیدی جائزے میں اس بات کو موضوع بحث بنایا گیا ہے کہ موجودہ دور تک کی جانے والی ہر تحقیق میں انہی مفروضوں اور تعصبات کا سہارہ لیا گیا۔
اپنی ہرمینوٹکس کی تھیوری میں ہانس جارج گڈامیر زور دیتا ہے کہ تعصبات ہی تاریخی موضوعات کے بارے میں سمجھ بوجھ اور تشریحات کا آغاز فراہم کرتے ہیں۔ جہاں وہ ایک جانب تعصبات کی اہمیت کا اقرار کرتے ہیں وہیں وہ دوسری جانب وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کے تعصبات کو درستگی کی ضرورت نہیں اور ان کو تاریخی نتائج مرتب کرنے کی اجازت ہونی چاہیے مثال کے طور پر ہر ایک کو اپنے تعصب اور سچ کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔
گاڈامیر کی یہ تھیوری جو تعصبات کو درست نہ کرنے کے بعد ایک بند اور محدود سوچ میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ہر متبادل تشریح کو ختم کر دیتی ہے بجائے کسی انسان کو درست نتیجے پر پہنچنے کے اور حقیقی جائزہ لینے میں مدد کرنے کے۔(2)
اسی نظریہ کی بدولت ابھی تک ہزارہ برادری کے شیعت کی جانب مائل ہونے کی وجوہات سے تعصبات اور مفروضات کی وجہ سے درست نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکا اور اس کا تعلق صرف اور صرف ان رائج مفروضات سے ہے جو کہ مصنفوں کی سوچ میں پائے جاتے تھے اور جن کا مقصد تاریخ میں اپنی مرضی کے واقعات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر ان میں سے اپنی مرضی کا نتیجہ نکالنا تھا جس میں حقیقت اور سچ کو کردار ادا کرنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی تھی۔ ہماری تحقیق میں یہ نہیں کہا گیا کہ ایسے تمام نتائج یا مفروضے غلط تھے لیکن صرف اتنا کہا گیا ہے کہ یہ بہت تنگ نظری پر مبنی جائزہ تھا جو پوری تصویر نہیں دکھاتا اور اس زمانے کی کئی سماجی اور معاشرتی حقیقتوں کو چھپاتا ہے۔ اسی وجہ سے مصنفوں کے یہ حقائق حقیقت پر مبنی نہیں ہیں اور انہیں درست تاریخ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ایک مجموعی اور مکمل تاریخی جائزے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان آوازوں اور تشریحات کو بھی شامل کیا جائے جو اس زمانے میں زیادہ معروف یا مقبول نہیں تھی اور جنہیں دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔(3) اس تحقیق میں ان تمام تشریحات کو شامل کیا گیا جو کسی نہ کسی طرح اس جائزے سے جڑی ہیں۔ یہ تحقیق محقیقین کو شہہ دیتی ہے کہ وہ غیر معروف اور غیر مقبول آوازوں کو بھی اہمیت دیتے ہوئے ان کی تشریحات کو شامل کریں۔(4)
یہ تحقیق خاص طور پر ان تشریحات کو توجہ دیتی ہے۔ یہ تحقیق بنیادی طور پر (ا) افغان ہزارہ برادری میں شیعت قبول کرنے کو ایک طویل تاریخی عمل سمجھتی ہے بجائے ایک مختصر واقعے کے ، (ب) یہ اس زمانے کی متبادل حقیقتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی تاریخی جدلیات کو کھنگالتی ہے۔
اب تک غیر مقبول نظریات اور تشریحات ایک ابھرتی ہوئی آواز کے طور پر مجتمع کیے جا سکتے ہیں۔
اس تحقیق کا آغاز غوری دور کے اوائل میں اسماعیلی تبلیغ اور اس کے ہزارہ برادری پر ہوے والے اثر سے ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں دو بڑی مثالیں ہیں جنہوں نے افغانستان خاص طور پر ہزارہ افراد میں شیعہ اسلام کو فروغ دیا لیکن ان آوازوں کو دباتے ہوئے قبولیت کا درجہ نہیں دیا گیا۔
افغانستان کے ہزار: موجودہ تشریحات کا تنقیدی جائزہ
افغانستان کے ہزارہ موجودہ دور کے افغانستان کے قدیم رہائشی ہیں۔ (5)
ان کی موجودہ جغرافیائی آبادیاں زیادہ تر افغانستان کے وسطی کالونیاتی دور میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے ہی آباد ہیں۔ انیسویں صدی میں اینگلو روسی طاقتوں کی افغانستان پر اثرورسوخ کی دوڑ نے اس ملک کی جغرافیائی سرحدوں، قومی تناسب، اور ملک کا نام خراسان سے بدل کر افغانستان کر دیا۔ کولونیاتی دور کے بعد امیر عبدالرحمن خان اور بعد میں آنے والے امیروں، بادشاہوں اور صدور نے افغانستان کو ایک تشدد کے ایک منظم ادارے میں تبدیل کر دیا۔
ریاست نے 1930 ، 1940 تک ایسی پالیسی اپنائے رکھی جس کا مقصد ہزارہ برادری کو جبری طور پر بے دخل کرنا اور ان کی زمینوں کو پشتون خانہ بدوشوں میں تقسیم کرنا تھا۔ ان میں جنوبی علاقوں کے پشتونوں کو اہمیت دی جاتی تھی۔(6)
عبدالرحمن کے دور حکومت میں ہزارہ برادری کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ سنی اسلام قبول کریں یا وہ افغانستان کے وسطی پہاڑی سلسلے میں چھپ جائیں یا ایران اور موجود پاکستانی علاقوں کی جانب فرار ہو جائیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر وہ جبر کا شکار تھے۔ انتظامی طور پر بھی ریاست نے ہزارہ برادری کے علاقوں کومخلتف صوبوں میں تقسیم کر دیا۔ صرف بامیان ہی ایک ایسا صوبہ تھا جس کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا تھا۔ ہزارہ برادری تاجک اور پشتون آبادیوں میں اقلیت کے طور پر رہ رہی تھی۔
ہزارہ برادری کی افغانستان میں موجودہ جغرافیائی پوزیشن اسی طویل سیاسی اور تاریخی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ بجائے اس کے ماضی کی طرح محقیقین کے ان سوالوں پر غور کیا جائے کے ہزارہ نے کب، کیوں اور کیسے شیعہ اسلام قبول کیا اور وہ ایسا کرنے والے پہلے افغان کیوں تھے؟
اس تحقیق میں ہم ان پیش گوئیوں، مفروضوں اور تشریحات کا جائزہ لیں جو ہزارہ برادری کے شیعہ اسلام قبول کرنے کے گرد بنی گئیں ہیں۔
آغاز میں ہی ہم دیکھتے ہیں کہ لطفی تیمرخانو ایک روسی اورئینٹلسٹ نکولائی الیگزینڈروچ ارستو کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کا کہنا تھا کہ ہزارہ افراد نے شیعہ اسلام تاجک علاقوں کے قدیم باسیوں سے متاثر ہو کر قبول کیا۔(7)
لطفی ارستو کے اس نظریے پر سوال اٹھاتا ہے اور اس کو چیلینج کرتا ہے۔ وہ ایسا دو بنیادوں پر کرتا ہے۔ پہلا یہ ہے ارستو نے اپنےمفروضے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں دیا۔ دوسرا یہ کہ وخن کے علاوہ زیادہ تر تاجک سنی ہیں نہ کہ شیعہ۔
حتی کہ وہ تاجک جو ہزارہ اکثریتی علاقوں میں رہتے ہیں جیسے کے دے کندی یا بامیان وہ شیعہ ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہزارہ قبیلے نے شیعہ اسلام تاجکوں سے متاثر ہو کر قبول کیا ہو۔ لطفی کا کہنا ہے کہ وہ تاجک جو ہزارہ علاقوں میں رہتے تھے انہوں نے شیعہ اسلام ہزارہ سے متاثر ہو کر قبول کیا ہے۔(8)
لطفی کا یہ کہنا بھی ایک مفروضہ ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے۔
اس بارے میں لطفی کا اپنا مفروضہ بھی ابہام پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہزارہ قبائل کی زیادہ تر شاخیں شیعہ اسلام سے تعلق رکھتی ہیں ماسوائے ہندوکش اور شیخ کے کچھ علاقوں کے ہزارہ افراد۔ وہ مزید تقسیم کرتے ہوئے ہزارہ افراد میں موجود اسماعیلی شاخوں داد خان،صحبت خان، محمد خان کے بڑے قبیلوں اور شاخوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ شیخ علی کے اسماعیلی پیروکار ہیں ان کا مرکز ایران کے شہر قم کے قریب مشرب کے علاقے میں واقع ہے۔(9) لیکن اس میں ہمیں دو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک تو یہ ہے شیخ علی کے قبیلے کے حوالے سے بتائے جانے والے نام درست نہیں ہیں اور شیخ علی کے علاقوں میں رہنے والے اسماعیلی ان ناموں سے واقف نہیں ہیں۔ شیخ علی میں چار بڑے قبیلے ہیں جن کے نام دے کالو، کرم علی ،نیمان، قلوغ یا قرلوغ ہیں۔
ان تینوں قبیلوں میں اسماعیلی شیعہ پائے جاتے ہیں جبکہ چوتھا گاوں مکمل طور پر غیر اسماعیلی ہے۔ جب مصنف نے ان علاقوں کے اکابرین سے یہ پوچھا کہ کیا وہ مشرب میں واقع مرکز سے رابطے میں ہیں تو تمام اکابرین قبائل نے اس کی تردید کی۔ ان کے مطابق اگر ایسا کچھ ہوتا تو یقینی طور انہوں نے اپنے اجداد سے اس بارے میں سنا ہوتا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلی بار اس بارے میں سنا ہے۔(10)
اسی وجی سے لطفی کا اس بارے میں پایا جانے والا مفروضہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ ان کے سوال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان ہزارہ قبائل کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے لیکن انہوں نے اس بارے میں اپنی رائے دوسرے ذرائع سے متاثر ہو کی قائم کی۔
بہسود جو 1832 میں علی الہی تحریک کے رہنما تھے اور ترکی اور ایران تک میں ان کے پیروکار پائے جاتے تھے۔ انہوں نے ہزارجات اور شمالی غزنی میں اپنے عقیدے کی تبلیغ شروع کی تھی۔ اس تبلیغ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت علی کو پیغمبر اسلام پر فوقیت دینے کے قائل تھے۔
ایک ہزارہ سردار نے اس عقیدے پر پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے خلاف مقدس جنگ کا اعلان کر دیا جس کے بعد علی الہی کے پیروکاروں کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا۔(11)
لطفی نے علی الہی رہنماوں کو اسماعیلی کسی مغالطے کو شکار ہو کر قرار دیا۔ علی الہی کے رہنماوں کے پیروکار شیخ علی، ایران، ترکی اور بہسود کے کچھ علاقوں میں پائے جاتے تھے جہاں یہ جنگ وقوع پذیر ہوئی۔ بظاہر برنس کا شیعہ افغانوں کے بارے میں نظریہ ان کے شیعہ مخالف خیالات سے متاثر تھا۔ جو ذرائع انہوں نے استعمال کیے وہ بدخشاں کے اسماعیلیوں سے غلط قسم کی حرکات منسوب کرتے تھے بشمول محمد حیدر دغلت کے، اس لیے برنس کا علی الہی کے بارے میں قائم مفروضہ بھی شکوک سے بھرپور ہے۔(12) سید عسکر موسوی کے مطابق افغانستان میں علی الہی کے پیروکاروں کی تعداد بہت کم تھی اس لیے 1830 میں بہسود میں ان پیروکاروں کی موجودگی کی بات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔(13)
ہزارہ افغانوں کے شیعہ اسلام قبول کرنے سے متعلق ایک اور مفروضہ صفوی بادشاہوں سے قبل مختصر حکومت کرنے والا صوفی خاندان کی حکومت بھی قرار دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے سبزوار اور سربادار قابل زکر ہیں۔(14)
یہ اس وقت حکومت میں آئے جب ان کے رہنما عبدالرزاق بہشتینی نے بیہق میں ایک ٹیکس جمع کرنے والے افسر کو قتل کیا۔ یہ 736 ہجری یعنی 1335 عیسوی کی بات ہے۔
انہوں نے مسلسل سزاوں سے بچنے کے لیے ایک بغاوت کی سربراہی کی اور مقامی افسران کو قتل کر ڈالا۔(15)
ایسا سبزوار کے علاقے میں کیا گیا۔ انہوں نے اس علاقے پر اپنا غلبہ قائم رکھا جس کے بعد یہ علاقے نصف صدی تک ان کے زیر حکومت رہا۔(17)
مغربی خراسان کی اس حکومت کے حوالے سے ابن بطوطہ نے لکھا ہے وہ خراسان سے سنیوں کاخاتمہ کرنا چاہتے تھے اور انہیں رافضی بنانا چاہتے تھے۔(18)
اس حوالے سے ابن بطوطہ کی معلومات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں اور ایسا سنی سنائی باتوں کے باعث لکھا گیا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ سرباداروں کے لیے اپنی نا پسندیدگی دکھانے کے لے ابن بطوطہ نے رافضی کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے جھٹلانے والے۔ وہ اس لفظ سے سرباداروں کا شیعہ عقیدہ بیان کرنا چاہتے تھے لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سربادار شیعہ مسلمان تھے۔ ان کے شیعہ رجحان نے سبزوار میں صوفی رجحان کو بڑھنے میں مدد دی اور یہی صوفی تھے جنہوں نے افغانستان میں ہزارہ افراد کو شیعہ اسلام کی جانب مائل کیا۔
لیکن تاریخ میں سبزواری صوفیوں کا ہزارہ برادری کو شیعہ اسلام کی جانب مائل کرنے پر موجود مواد منظم نہیں ہے۔ ایسا حسین علی حج کاظم کی 1989 کی تحقیق میں دیکھا گیا ہے جس میں انہوں نے ہزارہ افغانوں کے شیعہ اسلام کو قبولیت کو سبزواری صوفیوں سے جوڑا ہے۔ حج کاظم کے مطابق سربادار امیروں نے ایران اور افغانستان میں شیعہ اسلام کے پھیلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ شارخ تیموری کے زمانے میں سبزوار صوفیوں کے لیے حالات ناسازگار ہونے پر وہ سبزوار سے ہجرت کر کے بامیان، غزنی اور باقی ہزارہ علاقوں میں منتقل ہو گئے۔(19)
حج کاظم نے ان صوفی بزرگوں کی سرگرمیوں سے متعلق کوئی تاریخی ثبوت پیش نہیں کیا۔ ان کی تحقیق میں موجود یہ مواد بھی زبانی بیانات پر مبنی ہے جو کہ شیعہ اثنا عشری سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس بارے میں بھی یقینی طور پر مزید تحقیق ہونی چاہیے۔ معلومات کی کمی کے باعث یہ تعین کرنا ممکن نہیں کہ ہزارہ افغانوں میں شیعہ اسلام کا پھیلاو سبزواری صوفیوں کی بدولت ہوا۔
ایک اور روایت کے مطابق ہزارہ برادری نے شاہ عباس صفوی کے دور میں شیعہ اسلام قبول کیا۔ سولہویں اور سترویں صدی کا یہ دور کافی اہم سمجھا جاتا ہے خاص طور پر ایران میں شیعہ اسلام کے سرکاری فقہ کے طور پر رائج کیے جانے کے حوالے سے۔ لیکن لطفی اس مفروضے کو رد کرتے ہیں کہ ہزارہ برادری کے شیعہ اسلام قبول کرنے میں صفوی شاہی نے کوئی کردار ادا کیا۔ لطفی کے مطابق ہزارہ کے صفویوں کے دور میں شیعہ اسلام قبول کرنے کا تذکرہ سب سے پہلے ویمبرے نے 1860 میں کیا تھا۔ ایک صدی بعد امریکی محقق شرمن نے اس تاثر کی تصدیق کی ہے لیکن وہ ویمبرے کےاس مفروضے سے واقفیت نہیں رکھتے تھے۔ (20)
شرمن اس نتیجے پر صرف اسی صورت پہنچ سکے کیوں کہ صفوی حکومت اس دور میں عالم اسلام کی واحد شیعہ حکومت تھی۔
ایران کو شیعہ ملک میں تبدیل کرنے اور ہزارہ پر اس کے اثر ہونے کے حوالے سے صفویوں کے کردار ادا کرنے کا یقین مزید تحقیق کا طالب دعوی ہے۔ شاہ اسماعیل نے 1501 عیسوی میں شیعہ اسلام کو فارس کا سرکاری مذہب قرار دیا (21)اور اس کی مخالفت کرنے کو قابل سزا جرم قرار دیا۔ جس کی سزا موت تھی۔(23)
لیکن یہ ماننا کہ فارس میں شیعہ اسلام صرف تلوار کی نوک پر پھیلایا گیا ایک اتفاقی معاملہ نہیں اور اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔(24)
ابی صاب کی تحقیق کے مطابق خراسان اور فارس میں شیعہ اسلام کے پھیلاو میں سب سے اہم کردار شیعہ مجتہدین اور علما نے ادا کیا۔(25)
جبل عامل سے تعلق رکھنے والے ان علما کی اکثریت سنی مسلمانوں کو شیعہ اسلام کی جانب راغب کرنا ایک مذہبی فریضہ سمجھتی تھی (25)، لیکن ان علما کی ہزارہ علاقوں میں تبلیغ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔(26)
شرمن کا یہ بھی دعوی ہے کہ صفوی حکمرانوں نے ہزارہ افراد کو بت پرستی سے شیعہ اسلام کی جانب راغب کیا۔(27)
لیکن لطفی اس مفروضے کی تردید کرتے ہیں۔ عباسی امیروں کی تاریخ نامی کتاب کے ترجمے کے مطابق ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہزارہ اس زمانے میں بت پرست تھے۔(28)
اس کتاب کے مصنف اسکندر بیگ تھے۔ یہ کتاب شاہ عباس کے اس معاملے میں کردار کے حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہے لیکن اس کتاب میں ہزارہ شیعہ کو شیعہ مسلمان کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو کہ لطفی کے موقف کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔(29)
اگر اس زمانے میں بڑے پیمانے پر شیعہ اسلام قبول کرنے کے واقعات ہوتے تو یہ کتاب یقینا اس حوالے سے کچھ مواد رکھتی۔
لطفی کے مطابق ہزارہ افراد نے اسلام خاص طور پر شیعہ اسلام چنگیز خان کے خراسان اور فارس فتح کرنے کے بعد قبول کیا۔ خاص طور پر غزن خان کے اسلام قبول کرنے کے بعد۔ رشید الدین فضل کے مطابق غزن خان ہلاکو خان کا پڑپوتا تھا اور فارس کا ساتواں الخانی حکمران تھا۔ وہ بچپن سے ہی اسلام میں دلچسپی رکھتا تھا لیکن اس حوالے سے اس کے پاس کوئی مستند معلومات نہیں تھیں۔
اس کے اسلام سے متعلق تمام معلومات اس کی ذاتی دلچسپی کا حاصل تھیں۔ فضل اللہ کہتے ہیں کہ شیخ صدر الدین ابراہیم ابن قطب ال اولیا شیخ سعد الدین حماوی کا اس کی شخصیت پر گہرا اثر تھا۔ شعبان 1306 عیسوی میں غزن خان نے باقی منگول شہزادوں سمیت اسلام قبول کر لیا۔(30)
کچھ منگولوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی گئی لیکن فوج نے اس مخالفت کو دبا دیا جس کے بعد عبادت گاہوں اور تمام غیر اسلامی رسومات کا خاتمہ کر کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے کا کہا گیا۔(31)
غزن خان خود شیعہ اسلام میں کافی دلچسپی رکھتا تھا۔ وہ اکثر امام علی (ع) اور ان کے فرزندوں کے مزارات کی زیارت کرنے جایا کرتا تھا۔ وہ سادات اور شیعہ مسلمانوں کی بہت عزت کرتا تھا اور انہیں وظیفہ دیا کرتا تھا۔(32)
اس کی موت کے بعد اولدجیتو نے بھی اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شیعہ اسلام میں دلچسپی قائم رکھی اور اکثریتی سنی مسلمانوں کے خلاف کئی اقدامات لیے۔ غزن اور اولدجیتو کے شیعہ اسلام میں دلچسپی نے لطفی کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ وہ منگولوں نے ہزارہ افراد پر شیعہ اسلام کو زبردستی مسلط کیا۔
لطفی کا یہ مفروضہ شاید اس بنیاد پر وجود میں آیا کیونکہ وہ ہزارہ کے منگول نسل ہونے اور ان کے غزن خان کے ساتھ شیعہ ہونے کو اس سے جوڑتے ہیں۔ لیکن اولدجیتو کی موت کے بعد پورا خطہ خانہ جنگی کی زد میں تھا۔ اس وقت اولدجیتو کے بیٹے ابو سعید نے اقتدار سنبھالا۔ اس نے سنی اسلام قبول کیا لیکن اس کے گرد کافی اثر و رسوخ والے شیعہ موجود تھے ۔ غزن خان اور ان کے بھائی کے شیعہ اسلام قبول کرنے نے اس رجحان میں اضافہ کیا لیکن یہ ہزارہ افراد کی جانب سے شیعہ اسلام قبول کرنے کا آغاز نہیں تھا۔
لطفی کی یہ تشریح اور طریقہ کار شرمن کے نظریے سے بہت ملتا ہے۔ شرمن صفوی حکومت کی جانب سے شیعہ اسلام کو فارس پر مسلط کردہ کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ لطفی ایسا منگول شہزادوں کے شیعہ اسلام قبول کرنے کو قرار دیتا ہے۔
سید عسکر موسوی ان دونوں مفروضوں کو قابل قبول سمجھتے ہوئے ان کی مزید تحقیق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دونوں مصنفین درست ہو سکتے ہیں۔ ہزارہ قبائل کا شیعہ اسلام کی جانب مائل ہونا غزن خان کے زمانے میں شروع ہوا اور یہ سلسلہ ابو سعید اور شاہ عباس کے دور میں مکمل ہوا۔ موسوی کے ایسا خیال کرنے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
پہلے وہ اس کا مخاطب صرف اثنا عشری شیعہ کو سمجھتے ہوئے انہیں قابل احترام ہزارہ علما کہتے ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں وہ شاہ عباس کے زمانے میں شیعہ ہوئے۔ دوسرا موسوی اسکندر بیگ کی کتاب سے بھی مواد لیتے ہیں اور اس کتاب کو مستند ترین کتاب قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کتاب میں لکھا گیا کہ ‘ ہزارہ شاہ عباس کے زمانے سے پہلے ہی شیعہ ہو چکے تھے۔ دو یا تین ہزار ہزارہ فوجی محمد خان ازبک کی قیادت میں شاہ عباس کی فوج کے خلاف لڑے تھے۔(33)
لیکن یہ اہم نکتہ ہے کیونکہ اسکندر بیگ نے اپنی کتاب میں ہزارہ افراد کی مذہبی شناخت بیان نہیں کی انہوں نے لکھا کہ ‘ دین محمد خان خراسان پر حکومت کرنا چاہتا تھا اور اس کے لیے اس کے گرد بارہ ہزار ازبک اور تین ہزار ہزارہ فوجی جمع ہوگئے۔(34)
موسوی ترکمن، شرمن اور لطفی کے مفروضوں کو قبول تو کرتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دیتے کہ ہزارہ قبائل نے شیعہ اسلام غزن خان اور ابو سعید کے دور میں قبول کرنا شروع کیا اور اس کا خاتمہ شاہ عباس کے زمانے میں ہوا۔ لیکن ایسے مفروضے بھی ایک سوالیہ نشان ہیں کیونکہ ابو سعید کے بارے میں پہلے ہی بتایا جا چکا ہے کہ وہ شیعہ سے سنی اسلام کی جانب واپس لوٹ گئے تھے۔ اس علاوہ ترکمن کی تحقیق میں بھی شاہ عباس کے زمانے میں ہزارہ قبائل کے شیعہ اسلام سے منسلک ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
موسوی ایک اور نظریہ بھی پیش کرتے ہیں جو ان کے پہلے مفروضوں کی نفی کرتا ہے کہ سادات علویہ ایران اور افغانستان کے اصلی شیعہ تھے۔ موسوی آٹھویں شیعہ امام امام علی رضا کی عباسی خلیفہ المامون کے ہاتھوں شہادت کو سادات کی افغانستان اور مشرقی چین تک ہجرت کی وجہ قرار دیتے ہیں۔(35)
گو کہ تاریخ میں عباسی اور اموی دونوں حکمرانوں کی شیعہ اثناعشری اور شیعہ اسماعیلی خاندانوں سے دشمنی کے ثبوت واضح ہیں لیکن اس بارے میں مزید ثبوت درکار ہیں کہ حضرت علی کی آل افغانستان میں پہلے شیعہ تھے اور ان کی خراسان ہجرت لوگوں میں شیعہ اسلام قبول کرنی وجہ بنی۔
اس تمام بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہزارہ قبائل کا شیعہ اسلام قبول کرنے کا معاملہ نہایت پیچیدہ ہے۔مصنفین نے اپنی تحقیق اور دعووں کی تصدیق کے لیے زیادہ ثبوت تلاش نہیں کیے اور ان تمام کی تحقیق کو ان کا زاتی موقف سمجھا جا سکتا ہے جو کہ پوری تصویر نہیں دکھاتے۔
یہ درست ہے کہ غزن خان، ان کے بھائی اولدجیتو خان کے علاوہ صفویوں اور سرباداروں نے خراسان اور فارس میں شیعہ اسلام کے فروغ میں کردار ادا کیا لیکن وہ صرف اس بڑی تصویر کا ایک حصہ ہیں۔ پوری تصویر سمجھنے کے لیے ہمیں اس زمانے کی باقی تاریخ، حقائق کو بھی دیکھنا ہو گا جنہیں اس تصویر سے نکال دیا گیا ہے۔ اب ہم ہزارہ قبائل کے شیعہ اسلام قبول کرنے میں غوری سرداروں، اسماعیلی دعوت اور داعیوں کے کردار کا جائزہ لیں گے۔
غوری دور میں اولین شیعان علی
اسلام کے اوائل میں نبی پاک کے وصال کے بعد حضرت علی ع کے وفاداروں کو شیعان علی کا نام دیا گیا تھا۔ خراسان میں غوری اور ان کی رعایا شیعان علی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ موجودہ نقشے میں غور افغانستان کے وسط مشرقی حصے میں واقع ہے اور یہ ہزارہ علاقوں سے جڑا ہوا ہے۔
غوری حکمرانوں نے تاریخ دانوں کی توجہ اس دور میں حاصل کی جب عرب فوجیں ایران پر حملہ آور ہوئیں اور ساسانی بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد سوم خراسان فرار ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساسانی اشرافیہ کا ایک گروہ بھی تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق مرو کے گورنر مہاوی سوری نے اپنے بادشاہ کے قتل کا حکم دیا۔
مہناج سراج جزجانی کے مطابق مہاوی دہقان نے مل میں یزدگرد کو قتل کیا۔ پیٹروشوسکی اس کو مہاوی کی بادشاہت حاصل کرنے کی خواہش کے طور پر دیکھتا ہے۔(36)
وہ نیا ساسانی بادشاہ یعنی خسرو بننا چاہتا تھا۔ مہاوی نے بلخ کے علاقے کے ترکوں کو بھی یزدگرد کے خلاف بھڑکایا جو اپنی فوج ختم ہونے کے بعد مرو پہنچا تو مہاوی نے اسے شہر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔(37)
اسے مجبوری میں شہر سے باہر مل کے علاقے میں پناہ لینی پڑی جہاں ایک شخص نے اسے قتل کر ڈالا۔ ایسا شاید مہاوی کے حکم پر کیا گیا تھا۔
خراسان اس وقت ایک مرکزی حکومت کے زیر اثر نہیں تھا اور نہ ہی اس کی کوئی متحدہ فوج تھی۔ یزدگرد کے قتل کے ایک دہائی بعد مزاحمت نے سر اٹھایا۔ قارن ہیراتی یا قارن خراسانی نام کے رہنما کی قیادت میں مقامی آبادی نے عرب فوجوں پر نیشا پور کے علاقے میں حملہ کیا۔ ربیع ابن زیاد نامی کمانڈر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسے سیستان سے نکال دیا گیا۔ عربوں نے دوبارہ منظم ہو کر نیشاپور پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور قارن ہیراتی مارا گیا۔(38)
عربوں اور مقامی لوگوں کے درمیان یہ جھڑپیں دہائیوں تک چلتی رہیں۔
عربوں کے حملوں اور غوریوں کے سیاسی مقاصد نے خطے میں اس لہر کو جنم دیا جو بعد میں شیعہ اسلام کے فروغ کی وجہ بنی۔ امن معاہدے کی تلاش اور اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے مہاوی سوری نے غوری اشرافیہ کے ایک گروہ کو ساتھ لیا اور کوفہ کا رخ کیا تاکہ اسلام کے بارے میں معلومات سپہ سالار اور خلیفہ علی ابن ابی طالب رض سے حاصل کر سکے۔
حضرت علی سے ملاقات میں مہاوی نے ان کی بیعت کی اور اسلام قبول کر لیا۔ طبری نے اس حوالے سے دو روایات بیان کی ہیں۔ پہلی روایت میں وہ ابو جعفر سے نقل کرتے ہیں کہ یہ واقعہ صفین کی جنگ کے دوران پیش آیا کہ مہاوی حضرت علی سے ملنے آئے اور امن معاہدہ کرنے بعد خراسان واپس لوٹ گئے۔ دوسری روایت میں طبری اسحاق سے نقل کرتے ہیں کہ مرو کے گورنر مہاوی جنگ جمل کے بعد حضرت علی سے ملنے آئے اور حضرت علی نے مرو جانے والی فوج کے کمانڈر کو حمد و ثنا کے بعد لکھا کہ وہ گورنر مہاوی سے خوش ہیں اور ان کی ملاقات ہو چکی ہے۔ یہ خط 36 ہجری میں لکھا گیا۔(39)
اوپر بیان کیے گئے واقعات اس تاریخ کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں لیکن طبری کے زمانے تک یہ خط گم ہو چکا تھا۔ وہ چند سطریں جو طبری نے نقل کیں چند اہم نکات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ پہلی یہ کہ غوری سردار کی حضرت علی سے ملاقات ہوئی۔ دوسری یہ ہے کہ حضرت علی اس بات سے خوش تھے کہ مہاوی نے اتنا طویل سفر کر کے ان سے ملاقات کی اور مرو سے کوفہ کا سفر کیا۔
اس خط میں حضرت علی نے جس اطمینان کا اظہار کیا وہ غوری سردار کی صاف نیت کی عکاسی کرتا ہے۔ تیسرا نکتہ کہ حضرت علی نے مہاوی کو گورنر کہہ کر مخاطب کیا جو کہ ایک سیاسی اور انتظامی عہدہ ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ غوری سردار اپنے علاقے میں آزادانہ حکومت کرنے کا مجاز تھا۔ چوتھی بات کہ حضرت علی کا خط زہاقن اور مرو کے کمانڈروں کے بھیجا گیا تھا۔
یہ اس اختیار کی جانب اشارہ کرتا ہے جو حضرت علی نے مہاوی کو مرحمت فرمایا۔ مہاوی کے ساتھیوں کو اب خراسان میں عرب کمانڈروں اور حکام نے منظم کرنا تھا۔ پانچواں نکتہ کہ حضرت علی اور مہاوی کے درمیان یہ ملاقات خراسان میں حضرت علی کے حامی گورنروں اورسرداروں ابن امیرہ اور جعدہ ابن ہبیرہ ال مخذومی کے اتفاق اور مرضی سے ہوئی۔
اگر دونوں اطراف کے مابین امن نہ ہوتا تو غوری سردار کا وقت کے خلیفہ سے ملنا بہت مشکل تھا۔ یہ ملاقات غوریوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی، انہیں سیاسی طور پر بھی اس کا فائدہ ہوا اور اسلام کے بارے میں انہیں بذات خود خلیفہ اسلام سے رہنمائی ملی ۔ اس ملاقات سے نہ صرف غوریوں کو خراسان میں آزادانہ حکومت کا پروانہ ملا بلکہ خراسان میں شیعان علی کے وجود پانے کا سنگ میل سر کر لیا گیا۔
اس کے بعد کی نسلوں میں آنے والے مورخین نے غوریوں کے کوفہ کے سفر اور حضرت علی سے ان کی وفاداری کو مزید بیان کیا ہے۔غوریوں کے اہم مورخ جزجانی اپنی کتاب طبقات ناصری (603 ہجری، 1205 عیسوی) میں لکھتے ہیں کہ کہ شنسابانین کے خاندان کے غوری بادشاہ نے اسلام قبول کیا اور انہیں اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علی کی جانب سے اختیار اور علم دیا گیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس کے بعد آنے والے ہر حکمران نے تخت نشین ہوتے ہی ان الفاظ کو ورثے میں پایا جو امیر المومنین نے لکھے تھے۔ وہ ان الفاظ پر عمل کا حلف اٹھاتے جس کے بعد وہ باقاعدہ بادشاہ تسلیم کیے جاتے۔(40)
اس دور میں غوری کی شیعہ اسلام قبول کرنا اور شیعہ کی اصطلاح کوئی الگ مکتبہ فکر نہیں سمجھی جاتی تھی۔ جیسا کہ جعفری نے بیان کیا ہے اس زمانے میں شیعہ سے مراد گروہ یا پیروکار لی جاتی تھی اور یہ لفظ شیعان علی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔(41)
تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ غوری سردار اور اس کے ساتھی اس خطے میں پہلے شیعہ تھے جنہوں نے بعد میں ہزارہ، تاجک اور ترکمن علاقوں میں شیعت کی فروغ کے لیے میدان ہموار کیا۔
غوری حکمرانوں سے شروع سے ہی ایک الگ شناخت رکھی۔ وہ محبان علی تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے امیہ حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ حضرت علی کی شہادت کے بعد بھی انہوں نے امیہ بادشاہت کو قبول نہ کیا اور نہ اس کی بیعت کی۔ امیہ حکمرانوں نے اپنے اعمال سے حضرت علی پر سب و شتم کا مطالبہ کیا اور ان کے شیعوں کو مظالم کا نشانہ بنایا۔ اموی حکمرانوں کے 92 سالہ دور اقتدار میں غوریوں نے اپنی وفاداریاں خاندان پیغمبر ص اور حضرت علی سے منسلک رکھیں۔ اسی چیز نے انہیں ساتھی خراسانیوں، ہمسایہ فارسیوں اور عرب فاتحین سے الگ اور ممتاز حیثیت دی۔
ابو مسلم خراسانی کے عروج پر آتے ہی بنی امیہ خراسان اور اس کے بعد مسلم دنیا میں اپنا اثرورسوخ کھو چکی تھی۔ غوریوں کی 92 سالہ مزاحمت اس بات کی گواہ تھی کہ خراسان کے مقامی افراد عرب فاتحین کا کامیابی سے مقابلہ کر سکتے ہیں۔
غوریوں نے بلخ کے علاقے قتاغان سے ابو مسلم خراسانی کا ساتھ دیا۔ یہ علاقہ موجودہ افغانستان میں شامل ہے۔ ابو مسلم خراسانی نے بڑی فوج اکٹھی کی اور 750 عیسوی میں اس علاقے میں اپنی طاقت کو مضبوطی سے جمانے کے بعد امویوں کے خلاف انقلاب کا اعلان کیا۔ انہوں نے خراسان میں سیاسی بحران ختم کرکے امویوں کا تختہ الٹا اور عباسیوں کو ان کی جگہ تخت پر بٹھایا۔(42)
سید محمد حسین طباطبائی ابو مسلم کی تحریک کو شیعہ شورش یا بغاوت قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق ابو مسلم نے امام جعفر صادق کو خلافت کی پیشکش کی لیکن امام نے اس پیشکش کو رد کر دیا۔(43)
لیکن باقی مصنفین جیسے کہ حسین اسماعیل، وہ اس انقلاب کی سنی تشریح بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ تحریک رسول پاک کے چچا حضرت عباس کے پوتے ابراہیم سے جڑی تھی۔(44)
اور عباسی خلیفہ ایک سنی العقیدہ بادشاہوں میں تبدیل ہو گئے تھے۔
اب جبکہ ابو مسلم کی کہانی کے سنی اور شیعہ دونون پہلو سامنے آرہے تھے تو دوسری جانب انہوں نے ابو مسلم کی تحریک میں شامل غوری سرداروں پر اس دباوکو کم کرنے میں مدد دی جو امویوں کی جانب سے ڈالا جا رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد غوریوں نے اسماعیلیوں کی مدد سے غزنویوں کو شکست دے دوچار کیا اور اپنی آزاد اور خودمختار شاہی قائم کر لی۔ یہ حکومت غور کے پہاڑوں سے دوسرے علاقوں تک پھیل چکی تھی۔ اس کا دورانیہ 997 سے 1186 عیسوی تک تھا۔
غوری سلطانوں کی درمیان فقہی تقسیم شیعہ، اسماعیلی کرامی، شافعی اور حنفی سنی پر مشتمل ہے۔(45)
لیکن کی ان کی سلطنت کے دوران ہندوستان اور خراسان میں شروعات کے غوری سرداروں اور ابو مسلم نے خراسان سمیت باقی علاقوں میں شیعہ اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان علاقوں میں ہزارہ، تاجک اور ترک آبادی کے علاقے ہیرات، غور، غرجستان اور مرو خاص طور پر شامل ہیں۔
اسماعیلی دعوت اور ہزارہ قبائل کا شیعہ اسلام قبول کرنا
نویں اور سترویں صدر کے دوران اسماعیلی تبلیغی مشن اور داعی بہت متحرک تھے اور انہی کی بدولت افغانستان میں بڑے پیمانے پر شیعہ اسلام نے فروغ پایا۔ لیکن اس حوالے سے تاریخی لٹریچر ان کے کردار کو مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔
اسماعیلی دعوت کا نظام شیعہ اسلام میں سب سے منظم اور موثر نظام تبلیغ تھا۔ جس نے افغانستان خاص طور پر ہزارہ علاقوں میں شیعہ اسلام اور اس کی اسماعیلی شاخ کے منظم فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔(46)
افغانستان میں پہلا اسماعیلی تبلیغی مشن ہزارہ قبائل کے آبائی علاقے سے شروع ہوا۔ یہ اس دور میں شروع ہوا جب غیاث نامی ایک اسماعیلی فرد فارس سے خراسان فرار ہوا۔ یہ تیسری صدی ہجری کے اواخر میں ہوا۔
جب ایک سنی سردار الذعفرانی نے لوگوں کو اس کے خلاف بھڑکانا شروع کیا۔ غیاث نے اپنے نائب اور مشہور مذہبی فلسفی ابو حاتم احمد ابن ہمدان الرضی کو رے کا ذمہ دار بنا کر خور مرو کی راہ لی۔(47)
انہوں نے مرو الرد کے علاقے میں اپنی تبلیغ کا آغاز کیا۔ یہ علاقہ موجودہ افغانستان میں بدغیس کے صوبے میں واقع ہے۔
جس کے بعد اسماعیلی دعوت نے افغانستان میں اپنی جڑی مضبوط کیں۔ غیاث نے امیر الحسین علی المروازی کو اسماعیلی اسلام قبول کرنے پر قائل کیا۔ المروازی مختلف افغان علاقوں پر گہرا اثرورسوخ رکھتے تھے۔(48)
یہ مانا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے زیر حکومت علاقوں میں لوگوں میں اسماعیلی اسلام قبول کرنے کے لیے کردار ادا کیا۔(49)
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہزارہ، تاجک اور ترک افغانستان میں پہلے اسماعیلی تھے۔
اسماعیلی داعیوں کی اس کے بعد آنے والی نسل میں مشہور داعی فلسفی محمد ابن احمد نصفی اور ان کے بیٹے حسن مسعودی، ابو یعقوب سجستانی اور ناصر خسرو شامل ہیں۔ ان میں سے آخرالذکر خراسان میں اسماعیلی دعوت کے حوالے سے اہم ترین مقام رکھتے ہیں۔ سنی حکمرانوں کے جبر، مظالم، مشکلات کے باوجود ناصر خسرو نے اسماعیلی دعوت کو خراسان میں منظم یا جس کی جڑیں آج تک باقی ہیں۔(50)
اس کے علاوہ وہ پہلے فاطمی داعی تھے جنہوں نے اپنی شاعری اور نثر فارسی میں لکھی اور انہوں نے فارسی زبان کے ارتقا اور ادب میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی زبان افغانستان میں فارسی دری کے نام سے جانی جاتی ہے۔(51) فاطمی خلیفہ امام مصتنصر باللہ کی قاہرہ میں وفات کے بعد خلاف کی جانشینی پر اسماعیلی دو گروہوں نزاری اور مستعلوی میں تقسیم ہو گئے۔ مستعلوی قاہرہ میں اسماعیلی حکومت کو جاری رکھنا چاہتے تھے جبکہ نزاریوں نے 1090 عیسوی میں الموت میں ایک نئی ریاست قائم کر لی۔ 1256 میں سقوط الموت کے بعد فارس اور خراسان میں اسماعیلیوں پر زمین تنگ ہوگئی۔ فارس اور خراسان میں پھیلے اسماعیلیوں کی بڑی تعداد کو شیعہ یا سنی اسلام قبول کرنا پڑا۔
لیکن اسماعیلیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنا عقیدہ نہ چھوڑا۔ ناصر خسرو کی وفات کے چار سو سال بعد سید سہراب ولی بدخشانی جو کہ ایک اسماعیلی مصنف تھے، نے ناصر خسرو کی تعلیمات کو دوبارہ مرتب کیا اور اسماعیلی حکمت کے اصول وضح کیے۔
ایوانو کے مطابق یہ اصول سوا شش صحیفہ کے نام سے جانے جاتے تھے اور یہ 856 ہجری یعنی 1452 عیسوی میں لکھے گئے تھے۔ یہ ناصرخسرو کی تعلیمات پر مبنی ہیں لیکن ان میں اصل مواد بہت کم ہے۔(52)
اسی دور میں اسماعیلی امام مصتنصر بی اللہ دوم اور ان کے حامیوں نے مختصر مدت کے لیے طاقت حاصل کی۔ ایسا شاہ اسماعیل صفوی کے دور میں ہوا جنہوں نے اسماعیلی علما کو عزت دینے کے لیے انہیں چغے بھیجے۔ اسی دور میں اسماعیلی اماموں نے الموت طرز پر اپنے عقیدے کو دوبارہ تشکیل دینے کو کوشششوں کو تیز کر دیا۔
نزاری اسماعیلی قاسم شاہی امام نور الدین علی نے خواجہ سلطان حسین غرینی ہیراتی کو 1516 عیسوی میں تعینات کیا کہ وہ ہیرات کو ملحقہ علاقوں میں اسماعیلی نزاری امور کی نگرانی کریں۔(53)
ان علاقوں میں ہزارہ جات، ہیرات،غور، غرجستان اور بدغیس شامل تھے۔
تقریبا اسی وقت کے دوران ابو اسحاق قوہستانی جن کی وفات 1498 میں ہوئی اور خواجہ محمد رضا جو کہ خیرخواہ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور 1553 میں وفات پائی نے قیامت بارے الموت کے عقیدے کو دوبارہ جلا بخشی اور شریعت کے حوالے اسماعیلی تشریح کو مذہبی روایات کے معاملات پر توجہ دی۔ خیرخواہ اسماعیلی شاعر، داعی اور بڑے مصنف تھے۔
اپنے والد کے بعد ان کے جانشین کے طور پر خواجہ سلطان حسین غرینی ہیراتی نے داعی کا کردار ادا کیا اور ابو اسحاق قوہستانی کے ہفت باب پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے ترقی کی۔ یہ اب ناصر خسرو کا کام کلام پیر کہلاتا ہے۔ اس کلام کو ہزارہ اسماعیلیوں اور بدخشانی میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔(54)
اسماعیلوں نے مقامی پیروں کے زیر سرپرستی اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ان پیروں کو اسماعیلی اماموں کی جانب سے تعینات کیا جاتا تھا۔
پشتون اور سنی امیروں کی حکومت میں ہزارہ اثناعشری اور اسماعیلیوں کو جبروستم کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ امیر عبدالرحمن نے اپنے دور 1880 سے 1901 کے دوران اور طالبان نے اپنے دور حکومت میں افغانستان کی شیعہ ہزارہ آبادی کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایا۔ انہیں سنی اسلام یا ہجرت کرنے پرمجبور کیا جاتا تھا۔(55)
ان تمام مشکلات کے باوجود ہزارہ قبائل اپنے شیعہ عقیدے پر قائم رہے اور اپنے عقیدے کے اظہار سے کبھی نہ رکے۔
نومبر 2001 میں طالبان دور کے خاتمے کے بعد افغاستان میں سیاسی اور سماجی ماحول نسلی اقلیتوں کے حق میں بہتر ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے ہزارہ قوم کے علاوہ باقی گروہوں کو بھی فائدہ ہوا ہے۔
2002 میں اسماعیلیوں کے انچاسویں امام شاہ کریم الحسین آغا خان نے افغانستان کو جدید اسماعیلی اداروں جیسے کہ آغا خان ڈیلویپمنٹ نیٹورک، اسماعیلی نیشنل کونسل اور اسماعیلی عقائد اور مذہبی تعلیم سے روشناس کرایا۔ ماضی کی طرح یہ ادارے اور اسماعیلی تبلیغ کا نظام بہت منظم تھا اور اسماعیلی امام کے زیر سرپرستی چل رہا تھا۔ اسی دوران ہزارہ شیعہ بھی اپنے مذہبی روایات کے ارتقا کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ جس سے ان کی سماجی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور مذہبی اور سیاسی شخصیات سامنے آئی ہیں جس میں مدرسوں کے نظام نے بھی کردار ادا کیا۔
نتائج
اس تحقیق کے مطابق ہزارہ قبائل کا شیعہ اسلام قبول کرنا کسی ایک تاریخی واقعے سے بہت دور ہے اور ایسا کسی ایک واقعہ کو قرار دے کر محدود نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی یہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ کیوں اور کب ہزارہ قبائل نے شیعہ اسلام قبول کیا۔ جن افراد نے اس پر تجزیے کیے ہیں وہ بہت سے حقائق کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ایک مکمل تصویر پیش نہیں کر سکے۔
اس تحقیقی مقالے میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان مصنفین نے تاریخی حقائق کی تشریح اپنے تعصبات کے مطابق کرنے کی کوشش کی ہے اور مفروضوں پر مشتمل اپنے خیالات کو تاریخ کے بجائے زیادہ اہمیت دی ہے۔ اسی وجہ سے ان کی تشریحات نہ اس تصویر کو مکمل دکھاتے ہیں اور نہ ہی مجموعی انداز میں بیان کرتی ہیں۔
تفسیر کی رو سے یہ مقالہ ہزارہ کی شیعہ اسلام قبول کرنے سے حوالے سے پائی جانے والی مشترکہ غلط فہمیوں کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ غلط فہمیاں ‘معنی اور سمجھ بوجھ’ کے حساب سے مشترک ہیں۔ لیکن یہ مقالہ تاریخی مفروضوں کے بجائے ان کی بنیاد بننے والے نظریات کا جدید تھیوریٹیکل اور علمی جائزہ لیتا ہے جس میں اقلیتی نکتہ نظر کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ یہ لائحہ عمل غوری اور اسماعیلی دعوت کے اوائل کو بھی اہمیت دیتا ے۔ جن کو ‘ مین سٹریم’ تشریحات میں جگہ نہیں دی گئی۔ کچھ اور ایسی آوازیں بھی ہیں جنہیں سنا نہیں گیا اور وہ بھی اس بحث کا حصہ بن سکتی ہیں۔ اس لیے یہ مقالہ زور دیتا ہے کہ ان آوازوں کو بھی سنا جائے جو اقلیتی نکتہ نظر کی بنیاد پر تشریحات ترتیب دیتی ہیں۔
حرف آخر کے طور پر چاہے اس سوال کا جواب ملا ہو یا نہیں کہ ہزارہ قبائل نے شیعہ اسلام کیسے قبول کیا، لیکن اس مقالے میں یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسا ایک لمبے عرصے کے دوران ہو ہے جس میں مقامی اور علاقائی کے علاوہ عالمی سیاسی اور ثقافتی جہات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ عوام کی شیعہ عقائد اور رسومات سے رغبت اور لگاو نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ افغانستان کی موجودہ ہزارہ قبائل کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ پر محیط ہے جس میں ہزارہ قبائل نے شیعہ اسلام آزادانہ طور پر قبول کیا اور کئی مواقعے پر انہیں جبرا سنی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔
صرف اسی ارتقائی نظریے کے مدد سے اس تاریخی حقیقت کو معنوی طور پر سمجھا جا سکتا ہے چاہے یہ شیعہ اسلام کی ایک جہت کے بارے میں ہوں یا کسی دوسری کے۔ اسی لیے جب تک مقامی، عالمی سیاسی حالات یا ثقافتی ارتقا اور عوام کی جانب سے شیعہ رسومات میں شرکت جاری رہے گی شیعہ اسلام کی تشریحات میں بھی ارتقا کا عمل جاری رہے گا۔
Notes
1 I would like to thank my friends Jamil Kassam, doctoral candidate at the University of Chicago, and Russell Harris, researcher and editor at The Institute of Ismaili Studies, for proof-reading and commenting on the first and second drafts of this paper, respectively.
2 H-G. Gadamer, Truth and Method, 2nd ed. (London: Continuum, 2004), 271-85.
3 This approach is based on Mohammed Arkoun’s open pluralistic epistemology to which he refers as the Emerging Reason, and calls for the inclusion of marginal and peripheral voices in interpretation. See M. Arkoun, To Reform or to Subvert? (London: Saqi Essentials, 2006), 10-11, 37, 42-3.
4 This epistemological approach has been discussed in full detail in this author’s
forthcoming book, Y. Baiza, The Hazara Ismailis of Afghanistan: Their History, Religious
Rituals and Practices (2015).
5 For a full analysis of the Hazaras’ ethnic origin, see S. A. Mousavi, The Hazaras of Afghanistan: An Historical, Cultural, Economic and Political Study (Richmond, Surrey: Curzon, 1998) and Baiza, The Hazara Ismailis of Afghanistan.
6 For further details, see Y. Baiza, Education in Afghanistan: Developments, Influences
and Legacies (London: Routledge, 2013), 14-31.
7 Temirkhanov, L., Tarikh-i Milli-yi Hazarah [The National History of the Hazara] (Qum: Mu’allif, 1993), 44.
8 Ibid., 44.
9 Ibid., 43.
10 Personal interview with elders of various Shi‘a Isma‘ili Hazara communities in
Kabul, Afghanistan, June 2010.
11 A. Burnes, Travels into Bokhara II (London: John Murray, 1835), 154.
12 Burnes accuses the ‘Ali Allahis of having sexual orgies in the dark, for which they were named ‘chiragh-kush’, or ‘lamp-killers’. Ibid. Obviously, he did not observe such a ceremony, but rather wrote his account of the ‘Ali Allahis on the basis of gossip and perhaps influenced by the account of Dughlat and others who wrote polemic accounts about other smaller Shi‘a sects. For further discussion on this subject, see M. H. Dughlat, Tarikh-i Rashidi, trans. and annotation W. M. Thackston (Cambridge: Harvard University,
1996), 146.
13 Mousavi, The Hazaras of Afghanistan, 78.
14 There are two cities by the name of Sabzawar, one in Herat, Afghanistan, and one in the north-eastern Iran. The Sabzawar (Sabzwar) of Herat derives its name from its geographical location, lying along the Harut River in Herat. The name Sabzwar means Greenland. In the late 1950s, under Prime Minister Muhammad Daoud’s Pashtunization policy, the name of the place was changed from Sabzwar to Shin Dand, which is composed of two Pashto words: shin (green) and dand (lake), i.e., Green Lake, or a green area lying along and around a lake. Although both Sabzwar cities (in Afghanistan and Iran) may have had a common history in the past, the Sabzwar Sufi circles were primarily located in the present north-eastern Iran, from where they are then believed to have moved to Afghanistan and settled among the Hazaras.
15 C. P. Melville, ‘SarbadÁrids’, in Encyclopaedia of Islam (new edition) IX, ed. C. E.
Bosworth et al. (Leiden: Brill, 1997), 47-49.
16 J. M. Smith, Jr., The History of the Sarbadar Dynasty, 1336-1381 A.D., and its Sources (The
Hague: Mouton, 1970), 103.
17 A. A. Dehkuda, ‘Sarbadar’, in Lughat Namih-yi Dihkhuda XXI (Tehran: Chapkhanih- yi Majlis, 1973), 418.
18 A. A. M. Ibn Batutah, The Travels of Ibn BaÔÙÔa, A.D. 1325-1354 (New York: The
Syndics of the Cambridge University Press, 1971), 575.
19 H. A. Haj-Kazim, Pizhuhishi dar Tarikh-i Hazara-ha [An Investigation into the
Hazaras’ History] (Iran: Chapkhanih-yi Mahtab, 1989), 47-48.
20 Temirkhanov, Tarikh-i Milli-yi Hazarah, 45.
21 H. F. Schurmann, The Mongols of Afghanistan: An ethnography of the Moghôls and related peoples of Afghanistan (The Hague: Mouton, 1962), 120.
22 D. Morgan, Medieval Persia, 1040-1797 (London: Longman, 1988), 121.
23 Ibid.
24 R. J. Abisaab, Converting Persia: Religion and Power in the Safawid Empire (New York: I.B.Tauris & Co Ltd, 2004), 39-40.
25 Morgan, Medieval Persia, 122; Abisaab, Converting Persia, 39-40.
26 Abisaab, Converting Persia, 39-40.
27 Schurmann, The Mongols of Afghanistan, 120.
28 Ibid.
29 Temirkhanov, Tarikh-i Milli-yi Hazarah, 46-47.
30 R. Fadl Allah, Tarikh-i Mubarak-i Ghazani: Dastan-i Ghazan Khan [Ghazani’s Holy
History: the History of Ghazan Khan], ed. K. Jahn (London: Messrs. Luzac & Co, 1940).
80-81; R. Fadl Allah, Jami‘ al-Tawarikh [Compendium of Chronicles] II, ed. B. Karimi
(Tehran: Shirkat-i Nasbi Muhammad Husayn Iqbal va Shuraka, 1959), 903.
31 Temirkhanov, Tarikh-i Milli-yi Hazarah, 49.
32 Fadl Allah, Jami‘ al-Tawarikh, 984-5, 997.
33 Mousavi, The Hazaras of Afghanistan, 74.
34 I. B. Turkman, Tarikh-i ‘Alam Ara-yi ‘Abbasi I (Tehran: Chapkhanih-yi Gulshan,
1971), 569.
35 Ibid., 75.
36 M. Juzjani, Tabaqat-i Nasiri I & II, ed. A. H. Habibi (Kabul: Anjuman-i Tarikh-i
Afghanistan, 1963), 173.
37 I. P. Petrushevskii, Islam dar Iran az Hijrat ta Payan-i Qarn-i Nuhum-i Hijri, trans. K. Kishavarz (Tehran: Intisharat-i Payam, 1972), 42-43.
38 Encyclopedia of Aryana, ‘Afghanistan: Awda‘-i Afghanistan Maqarin-i Zuhur-i
Islam’ [Afghanistan: Afghanistan’s Condition in the Eve of the Rise of Islam], in Encyclopaedia of Aryana III (Kabul: Matbu‘ah-yi Umumi, c. 1956), 301; A. H. Habibi, Tarkikh-i Afghanistan ba‘d az Islam [A History of Afghanistan after Islam] I (Kabul: Anjuman-i Tarikh-i Afghanistan, 1966), 153.
39 Tabari, Tarikh-i Tabari IV, 263; VI, 2494.
40 Juzjani, Tabaqat-i Nasiri I, trans. Major H. G. Raverty (New Delhi: Oriental Books
Reprint Corporation, 1970), 302, 319-320.
41 S. H. Ja‘fari, The Origins and Early Development of Shi‘a Islam (London
Longman, 1979), 2.
42 S. Moscati, ‘AbÙ Muslim,’ in Encyclopaedia of Islam (new edition) I, ed. H. A. R. Gibb et al. (Leiden: E.J. Brill, 1986).
43 S. M. H. Tabatabai, Shi‘Ðte Islam, trans. and ed. S. H. Nasr (Albany: State University
of New York Press, 1975), 62.
44 H. Ismaili, ‘Foreword,’ in A. T. Tartusi, Abu Muslim Namah I, (Tehran: Nuqrih,
2001), 102.
45 F. B. Flood, ‘Ghurid Monuments and Muslim Identities: Epigraphy and Exegesis in
Twelfth-century Afghanistan’, in The Indian Economic and Social History Review XLII, no.
3 (2005), 263-294, 281-84.
46 For a detailed and systematic study of the Ismaili da‘wat in Afghanistan, see Baiza,
The Hazara Ismailis of Afghanistan.
47 F. Daftary, A Short History of the Ismailis: Traditions of a Muslim Community
(Edinburgh: Edinburgh University Press, 1998), 43.
48 Stern, S. M., ‘The Early IsmÁ‘ÐlÐ Missionaries in North-West Persia and in KhurÁsÁn and Transoxania’, in Bulletin of the School of Oriental and African Studies, XXIII, no. 1 (1960), 56-90.
49 F. Daftary, The Isma‘ilis: Their History and Doctrine, 2nd ed. (Cambridge: Cambridge
University Press, 2007), 111.
50 See Nasir Khusraw, Khwan al-Ikhwan, ed. Y. Al-Khashab (Cairo: Institut Français d’Archeologie Orientale, 1940).
51 For more detail on the Ismaili daw‘at and Ismaili da‘is, see Baiza, The Hazara
Ismailis of Afghanistan.
52 W. Ivanow, ‘Foreword’, in in H. Ujaqi (ed.), Si wa Shash Sahifah [Thirty-Six Epistles] (Tehran: Kayhan, 1961), 9-11.
53 F. Daftary, The Isma‘ilis, 434.
54 W. Ivanow, ‘Foreword’, in Tasnifat-i Khayr-khwah-i Hirati. ed. W. Ivanow (Tehran: The Ismaili Society of India in association with Kayhan Press, 1961), 11.
55 See Baiza, Education in Afghanistan, 25-31, 168-71,